این سی اور کانگریس نے سیٹ شیئرنگ کے نام پر جو انتخابی اتحاد قائم کیا ہے اس کا ایک ہی مقصد بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کو کشمیر اقتدار پر قبضہ کرنے سے روکاجائے ۔ اس سے پہلے بی جے پی پہلی بار جموں کشمیر میں اس وقت حکومت پر براجماں ہوئی تھی جب اس نے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کیا ۔ آج پی ڈی پی کی لیڈر شپ کا کہنا ہے کہ صرف یہی ایک پارٹی بی جے پی کو کشمیر میں حکومت بنانے سے روک سکتی ہے ۔ پارلیمنٹ ممبر اور عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے ساڑھے پانچ سال بعد جیل سے باہر آتے ہی وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے خلاف ایسا بیانیہ شروع کیا جو سب کے لئے حیرانی کا باعث ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی اس شدت کی تنقید برداشت کررہی ہے ۔ انجینئر نے تہار جیل کے صدر دروازے سے لے کر کپوارہ تک شروع مچا رکھا ہے کہ وزیراعظم کی کشمیر پالیسی پوری طرح سے ناکام ہوکر رہ گئی ہے ۔ ادھرانتخابات میں حصہ لینے والی ہر پارٹی اور امیدوار کا ایک ہی نعرہ ہے کہ بی جے پی کو کشمیر آنے سے روکنا ہے ۔ یہ سب لوگ ووٹروں کو یقین دلارہے ہیں کہ وہ بی جے پی کو روکنے کے لئے میدان میں آئے ہیں ۔ ایسا کرنا کیا واقعی ممکن ہے ایک بڑا سوال ہے ۔ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام لوگ اس طرح کے بیانات تو دے رہے ہیں لیکن ان کے عمل سے یہی اندازہ ہورہاہے کہ وہ بی جے پی کے لئے راستہ ہموار کررہے ہیں ۔ اگر واقعی اس حوالے سے یہ پارٹیاں اور دوسرے وہ لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں منتشر نہیں ہوتے ۔ یہ بات واضح ہے اور الیکشن میں حصہ لینے والے تمام لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ منتشر ہوکر الیکشن لڑنے سے ووٹ بینک مختلف حصوں میں تقسیم ہوگا ۔ ووٹ کے اس طرح سے تقسیم ہونے سے صرف اور صرف بی جے پی کو فائدہ ہوگا ۔ ایسے تمام لوگ ایک دوسرے پر الزام لگارہے ہیں کہ ووٹ تقسیم کرنے میں ان کا رول رہاہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ووٹ تقسیم کرنے کے لئے بی جے پی ذمہ دار نہیں ۔ بلکہ یہ کام یہاں کے مقامی لیڈروں نے انجام دیا ۔ اس ضمن میں پہلا قدم این سی کی طرف سے اٹھایا گیا جب گپکار الائنس کو بکھیرنے کا کار خیر انجام دیا گیا ۔ گپکار الائنس کو بکھیرنے کے لئے پہلا بیان عمر عبداللہ کی طرف سے دیا گیا جب پی ڈی کے خلاف محاذ کھولا گیا ۔ اس موقعے پر اندازہ تھا کہ الائنس میں موجود دوسرے عناصر خاص طور سے یوسف تاریگامی سے متعلق خیال تھا کہ وہ الائنس کو بحال رکھنے کے لئے آگے آئیں گے ۔ تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنیا سمبلی سیٹ بچانے اور این سی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے بھی پی ڈی پی کو دھکا دینا بہتر سمجھا ۔ پی ڈی پی چونکہ بی جے پی کی حمایتی رہی تھی اور عوام کے اس کے خلاف متوقع نفرت کو بہانہ بناکر پی ڈی پی کو پہلے ہی قدم پر الگ کیا گیا ۔ اس طرح سے گپکار الائنس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ۔ بعد میں این سی اور کانگریس نے نیا اتحاد قائم کیا جس سے پی سی کو الگ تھلگ رکھا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ پی سی لیڈرشپ سے سرے سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ۔ ایسے تمام اقدامات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی آسانی سے اپنا دبائو بنائے رکھنے میں کامیاب ہوگی ۔ وہ حکومت نہ بھی بنائے تاہم ایک مضبوط اپوزیشن کے طور ابھر آئے گی اور دوسری کسی بھی سرکار کو آرام سے کام کرنے نہیں دے گی ۔ بی جے پی حکومت بنائے یا مضبوط اپوزیشن کے طور اسمبلی میں موجود رہے ہر صورت میں کشمیر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگی ۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ بی جے پی کو کشمیر میں داخل ہونے سے کوئی بھی روکنے میں کامیاب نہیں ہوگا ۔
دہلی کی حکومت اور اپوزیشن دونوں گروہوں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ کشمیر کے رواں انتخابات انتہائی اہم اور نئی تاریخ رقم کرنے کا باعث ہونگے ۔ کانگریس صدر نے کشمیر آکر یہ بات اعلانیہ کہی کہ ملک کے تمام لوگ کشمیر انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح بی جے پی کی وزیراعظم سمیت پوری اعلیٰ قیادت نے یہاں آکر انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لیا ۔ ان تمام لیڈروں کی کوشش ہے کہ بی جے پی کو ووٹروں کی حمایت حاصل ہوجائے ۔ ان سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے لئے یہ انتخابات کم اہم نہیں ہیں بلکہ پارٹی کی کشمیر پالیسی کے لئے ایک لٹمس ٹیسٹ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے امیدواروں کے لئے الیکشن مہم چلانے کے لئے یہاں ڈھیرا ڈالے ہوئے ہیں ۔ ان لیڈروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو جموں میں بیشتر سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوگی ۔ اس کے علاوہ کشمیر سے انہیں کئی ممبران کی بلا شرط حمایت مل جائے گی اور پارٹی مخلوط سرکار بنانے میں کامیاب ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی انتخابات پر پورا زور لگائے ہوئے ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے لئے یہ انتخابات بہت اہم ہیں ۔ اس کے برعکس مقامی پارٹیوں کے لیڈر ایسی اہمیت اجاگر نہیں کررہے ہیں ۔ ووٹ حاصل کرنے کے لئے بی جے پی کے خلاف تیز و طرار بیانات دئے جارہے ہیں ۔ اس کے خلاف بندباندھنے کے نعرے لگائے جارہے ہیں ۔ لیکن سب لوگ ایسی پالیسی پر گامزن ہیں جس کا ایک ہی نتیجہ نکلنے والا ہے کہ بی جے پی بڑا ووٹ شیئر حاصل کرکے اقتدار پر قابض ہوگی ۔
