از:جہاں زیب بٹ
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں کے طرز پر سرگرم کشمیری ملی ٹینٹ ہتھیار چھوڑدیں تو مرکزی سرکار انکے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے بصورت دیگر وہ سیکو ر ٹی فورسز کے
ہا تھوں مارے جاییں گے ۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب بھاجپا حکومت نے سرگرم جنگجوؤں کو میز پر آ نے کی دعوت دی ہے۔ویسے بھاجپا حکومت کے پچھلے دس گیارہ سالہ دور حکومت میں تمام تر توجہ سیکو ر ٹی صورتحال بہتر بنانے پر ہی مرکوز رہی اور اسلام آباد کے ساتھ ساتھ جنگجوؤں کو ڈایلاگ کے لیے مدعو کرنے سے احتراز کیا گیا ۔دفعہ 370 ہٹانے اور کشمیر کو یوٹی درجہ پر گرانے کے پس پردہ محرکات میں ایک یہ بھی تھا کہ ہو م منسٹری کو زیادہ سے زیادہ انتظامی اختیارت تفویض ہوں جن سے وہ عسکری تحریک سے موٹر طور نپٹ سکے۔یوٹی بننے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر دہشت گرد ی کا نظام نشانہ بنایا گیا اور ٹیرر فنڈنگ سے لیکر عسکریت کے ساتھ معمولی وابستگی اور ہمدردی ہی کیا کسی جنگجو کے ساتھ آشنایی تک مہنگی ثابت ہویی ۔غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون کے تحت جہاں کچھ لوگوں کو پابند سلاسل کیاگیا وہیں کچھ کی نوکریاں گیں اور کچھ کے پاسپورٹ روک دیے گیے۔ اسی طرح تقریباً تمام علاحدگی پسندتنظیموں پر پابندی عاید کی گیی اؤر سرکردہ حریت لیڈروں کو ٹیرر فنڈنگ کے الزام میں تہاڈ اور دوسرے جیلوں میں بھیجا گیا ۔اس وسیع کریک ڈاؤن سے جہاں کشمیر کی صورتحال میں زبردست تبدیلی پیدا ہو یی وہیں یوٹی بننے سے مذاکرات کی گنجایش اور امکان تقریباً معدوم ہو گیا۔مبصرین کی راے یہ ہے کہ کشمیر کا خصوصی درجہ کالعدم ہو نے اور ملک کی آزادی کے بعد کسی ریاست کو یو ٹی بنانے
کا پہلا واقعہ رونما ہو نے کے بعد کچھ بچا ہی نہیں جو مذاکرات کی میز کا موضوع بن سکے اور عسکریت پسندوں کےلیے باعث کشش۔
عسکریت کی کمر ٹو ٹنے،حریت کی بیخ کنی اور بکھراؤ کے بعد جمہوریت سے باہر کویی معتبرجماعت اور قدآور لیڈر نہیں جو مذاکرات کی میز پر آ نے کی پوزیشن میں ہو ۔حریت کھنڈرات کے درمیان جو بچا کھچا ٹولہ ہے وہ آج کی تاریخ میں مذاکراتی میز پر جایے تو کیا لیکر اور کیا لانے کی امید پر ؟ ویسے بھی علاحدگی پسند سیاسی لیڈروں کو حکومت پوچھتی ہے اور نہ ان کو کہیں سے بلاوا آتا ہے۔ ہوم منسٹر امت شاہ نے مخصوص طور پر سرگرم عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آج کی انوکھی ملی ٹینسی کا مسکن گھر ،بستی گام و شہر نہیں بلکہ جنگل اور زیر زمین کھڈ اور پناہ گاہیں ہیں ۔اس ملی ٹینسی کا کو یی معروف چہرہ ہے اور نہ بالاے زمین کو یی اتہ پتہ ۔لہذا سرگرم دہشت گردوں کی
طرف سے ڈایلا گ کی پیشکش کا کہیں سے کویی جواب نہ ردعمل۔
