رواں اسمبلی انتخابات کے دو مرحلے پہلے ہی پر امن طریقے سے مکمل ہوچکے ہیں ۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ ووٹ پڑے ۔ مجموعی طور نصف سے زیادہ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ پہلے مرحلہ کے لئے 18 ستمبر کو اور دوسرے مرحلے کے لئے 25 ستمبر کو ووٹ ڈالے گئے ۔ دونوں مراحل کی ووٹنگ پر تمام سیاسی اور عوامی حلقوں نے اطمینان کا اظہار کیا ۔ تلخی کے اکا دکا واقعات پیش آنے کے علاوہ کہیں کوئی بڑا گڑ بڑ نہیں ہوا ۔ سرکار نے سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے تھے ۔ اس کے علاوہ لوگوں نے بھی لڑنے جھگڑنے سے پرہیز کیا ۔ اس وجہ سے ووٹنگ پر امن رہی ۔ سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی سربراہ نے معمولی قسم کی دھاندلیوں کی ضرور شکایت کی ۔ انہوں نے اس حوالے سے مبینہ طور الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مطلع کیا اور ایسے واقعات کی تحقیقات کرنے کی مانگ کی ۔ تاہم الیکشن کمیشن کمیشن کی طرف سے تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ الیکشن کے دوران ایسے واقعات کا پیش آنا کوئی بڑی بات نہیں مانی جاتی ہے ۔ کشمیر سے باہر کئی علاقوں میں ایسے موقعوں پر خون خرابہ ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے معمولی نوعیت کے واقعات اور اس حوالے سے کی جانے والی شکایات کی طرف توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ ماضی میں اس سے بڑے واقعات پیش آنے پر کبھی الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ ماضی کا تجربہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اپنا کام مکمل کرنے سے غرض ہوتی ہے ۔ ادھر ادھر کے گڑ بڑ سے انہیں زیادہ مطلب نہیں ہوتا ہے ۔ اس طرح کے واقعات کو اہمیت دے کر ساری ریپوٹیشن خراب نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات کو نظر انداز ہی کیا جاتا ہے ۔ پھر الیکشن کمیشن ایسی کسی شکایت پر توجہ دے ہر ایرا غیر امیدوار شکایت کرنے لگے گا اور ہر پولنگ مرکز پر سوالات اٹھنے شروع ہونگے ۔ رواں انتخابات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ویب پولنگ کا انتظام تھا اور ہر پولنگ اسٹیشن پر آبزرورز کی نظریں لگی ہوئی تھیں ۔ اس وجہ سے کسی طرح کی ناجائز پولنگ کا سوال ہی نہیں ۔ پی ڈی پی سربراہ کی طرف سے کی گئی شکایت کا جائزہ لیا جائے گا اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے ۔ ادھر تیسرے مرحلے کی پولنگ کے لئے تیاریاں جاری ہیں ۔ پوری سرکاری مشنری اس کام میں مصروف ہے کہ آخری مرحلے کی پولنگ بھی پر امن اور صاف شفاف طریقے سے منعقد ہوسکے ۔ اس مرحلے پر شمالی کشمیر کے علاوہ صوبہ جموں کے 4 اضلاع میں ووٹنگ ہورہی ہے ۔ جن علاقوں میں ووٹنگ ہونے والی وہاں کئی پولنگ اسٹیشن سرحد کے پاس قائم کئے گئے ہیں ۔ ایسے زمانے میں جب سرحدوں پر جنگ بندی نہیں ہوئی تھی اور رات دن دونوں طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہتا تھا ۔ سرحدی علاقوں میں پولنگ کا انعقاد جان جوکھم کا کام سمجھا جاتا تھا ۔ آج سیکورٹی حلقوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ووٹنگ پر امن طریقے سے انجام پائے گی ۔
پہلے دو مرحلوں کی ووٹنگ میں 50 نشستوں پر ووٹ ڈالے گئے ۔ اب 40 نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا کام باقی ہے ۔ ان نشستوں پر ووٹنگ کے لئے تاریخ کا تعین کیا جاچکا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے ووٹنگ شیڈول کے تحت ان نشستوں پر یکم اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ اب ساری توجہ آخری مرحلے کی ووٹنگ پر مرکوز ہے ۔ اس مرحلے پر شمالی کشمیر کی 16 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ جن حلقوں میں ووٹ ڈالنا باقی ہے وہاں کئی اہم امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے ۔ ایسے امیدواروں میں پی سی کے سجاد لون خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ لون دو نشستوں پر قسمت آزمائی کے لئے میدان میں اترے ہیں ۔ اس سے پہلے ان کے والد مرحوم غنی لون شمالی کشمیر کی ان نشستوں پر الیکشن لڑچکے ہیں ۔ غنی لون کے سیاسی کیریر خاص طور سے اسمبلی میں ان کے نبھائے گئے کردار کی وجہ سے انہیں سخت یاد کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ان کا رول بڑا ہی قابل فخر رہاہے ۔ مرحوم لون نے پہلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور پوری شجاعت کے ساتھ یہ رول ادا کیا ۔ اب ان کے فرزند اسمبلی میں جاکر اپنا کردار نبھانا چاہتے ہیں ۔ سجاد لون پہلے بھی الیکشن جیت کر اسمبلی تک پہنچ چکے ہیں اور بحیثیت وزیر بھی کام کیا ہے ۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب اسمبلی کے اندر کوئی ایسے خاص مدعے نہیں تھے جن پر بول کر تاریخی کردار ادا کیا جاتا ۔ اب ان کی کوشش ہے کہ کامیاب ہوکر ایک کامیاب لیجسلیٹر کے طور سامنے آئیں ۔ ان کے مقابلے میں این سی کے مضبوط امیدواروں کے علاوہ حال ہی میں جیل سے رہا کئے گئے پارلیمنٹ ممبر انجینئر رشید کی پارٹی کے امیدوار میدان میں ہیں ۔ اس حوالے سے پورے شمالی کشمیر میں سہ فریقی مقابلے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے ۔ جموں میں این سی کانگریس گٹھ جوڑکے مقابلے میں بی جے پی کے امیدوار کھڑا ہیں ۔ یہاں 24 نشستوں پر ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔ اس حوالے سے اودھم پور ، جموں اور سانبہ میں امیدواروں کے درمیان کڑا مقابلہ بتایا جاتا ہے ۔ اس مرحلے کی ووٹنگ سے پورا سیاسی منظر نامہ سامنے آنے کا امکان ہے ۔
