از:رشید پروین ؔ سوپور
’سوپور‘ کشمیر کا وہ تاریخی قصبہ ہے جو اونتی ورمن کے وزیر ’سویا ‘ کے نام سے منسوب ہے ،اونتی ورمن کشمیر کا ۸۵۵سے ۸۸۳ سی ای تک حکمران رہا ہے اور تاریخی طور پر اس بات کے شواہد ہیں کہ یہ بہت بڑا اور اچھا حکمران ثابت ہوا جس نے انارکی ختم کر کے زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی ریاست کو بلندیوں تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور اسی کے دور میں ’’سویا ‘‘ نام کے ایک انجینئر نے دریائے وتستا کا رخ شادی پور سے اولر کی طرف موڑ دیا اور یہ کہ اسی کی کاوشوں کی بنا پر ایک اور شہر بسا جو اس کے نام سے منسوب ہوکر’ سویا‘ سے سوپور بن گیا ، اور اس سوپور کی یہ تاریخی حثیت کئی لحاظ سے مسلم ہے ، سوپور کو سیاسی طور پر ہنگامہ خیز بستی اور ایپل ٹاون بھی کہا جاتا ہے ، ایشیا ء کی سب سے بڑی فروٹ منڈی یہاں ہے ، باغات کے حد نگاہ تک سلسلوں نے اس سے معاشی طورمستحکم اور مظبوط بنیادیں فراہم کی ہیں ، دریائے جہلم کے دو کناروں پر آباد ہے ، تاریخی طور اس بات کے شواہد ہیں کہ یہاں کی اولین بستیاں اگرچہ یہاں کے پشتنی باشندوں، ہانجی طبقے کی رہی ہیں لیکن کسی دور میں ایسا گماں ہے کہ سیریا(شام) اور وسطی ایشیاء سے بھی لوگ یہاں آکربودو باش اختیار کر چکے ہیں ، سوپور کا مزاج سر کش ، ضدی، کینہ پرور ،اور ان کی سرشت میں وفا کا عنصر بھی کم ہی ہے ، ایک ضرب المثل یہ بھی ہے کہ ’’سوپور اپنوں کی نہیں پرائیوں کے لئے اپنی بانہیں پھیلائے رکھتا ہے ‘یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی اور خوبصورت جھیل بھی سوپور سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پرہے اور دریائے جہلم بھی اسی جھیل کے بیچوں بیچ سے گذر کر آگے پاکستان کی حدوں میں داخل ہوتا ہے ، ادبی لحاظ سے یہاں کی مٹی کافی زرخیز رہی ہے اور بڑے بڑے ادبا و شعرا حضرات اس مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور بہت سے صوفی شعرا کے علاوہ درویشوں اور بلند پایہ صوفیوں اور ریشی منیوں کی ایک کہکشاں بھی اسی آسماں میں آج بھی ضو فشاں ہے ، سیاسی لحاظ سے مدتوں سے بلکہ سوپور کے انداز فکر کو سارے کشمیر میں اہمیت رہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قصبے کے عوام نے اپنی آزاد سوچ و فکر کو زندہ رکھتے ہوئے مختلف ادوار میں مہارجوںاور حکمرانوں سے نہ صرف اختلاف رائے رکھا ہے بلکہ ان کے ساتھ پوری طاقت اور قوت کے ساتھ ٹکرانے کی ہمت کی ہے ، اس کی مثال یہ بھی ہے کہ ، بخشی دور سے ۷۵ کے اندرا عبداللہ ایکارڈ تک اور پھر اس ایکارڈ کے خلاف سوپور نے ہی شیخ کے خلاف بھی پہلی آواز بلند کی ، اور اس کے بعد جب ہم ۱۹۸۹ کی ملیٹینسی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ قصبہ مکمل طور پر باقی کشمیر سے کٹ چکا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں جماعت اسلامی اور سید علی گیلانی کے افکار سے اتفاق مجموعی طور پر حاوی تھا ، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرحوم سید علی گیلانی پندرہ برس اسمبلی کے رکن رہے اور پورے پندرہ برس این سی، کی متواتر شکست اور جماعت اسلامی کی جیت نے اس قصبے پر دور رس نتائج مرتب کئے، خصوساً این سی کی قیادت نے قصبہ سوپور کو ہر لحاظ سے نظر انداز کرکے انتقام گیری کا ایک سلسلہ جاری رکھا جو باقی حکمراں جماعتوں نے فالو کیا ،اب یہاں کی سیاسی ہوائیں اگرچہ بدل چکی ہیں لیکن باقی حلقوں کی مانند یہاںتقسیم در تقسیم کا فارمولہ آزمایا گیا جو کامیاب نظر آرہا ہے ، ، ، اس سے پہلے کہ ۲۰۲۴ کے انتخابات کا مختصر سا جائزہ لیا جائے ۲۰۱۴ کے انتخابات کی کچھ اہم باتیں ذہن نشین کردوں تاکہ پڑھنے والے خود بھی آنے والے انتخابات کا اندازہ کر سکیں، دو ہزار چودہ میں خوف کی فضابڑی حد تک معدوم ہوچکی تھی ، اور اسمبلی انتخابات کی فرے میں اس حلقے سے سولہ امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے ، عبدالرشید ڈار کانگریس ، ارشاد صاحب کار آزاد،محمد اشرف گنائی این سی محمد رمضان بابا پی سی اور نذیر احمد نائیکو صاحب پی ڈی پی قابل ذکر ہیں ۔ڈار نے ۸۴۲۹ نائیکو نے ۵۶۷۴ارشاد صاحب نے۵۳۲۴این سی نے ۴۰۷۹اور محمد رمضان بابا نے ۱۵۶۷ وؤٹ لئے تھے ، اور باقی جتنے بھی تھے ان میں سے شاید کسی نے ایک ہزار کا ہندسہ پار نہیں کیا تھا ، آج یہی ارشاد صاحب این سی کے منڈیڈیٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں ، پہلے دوسرے امیدواروں کا تذکرہ جو قابل ذکر ہیں ، کانگریس عبدالرشید ڈار صاحب جن کا ذکر ہوچکا ہے اور جنہوں نے کانگریس ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا ، اس کی وجوہات صرف یہ رہی تھیں کہ ان کے اپنے گاؤں اور دوست و احباب نے ہمت کرکے پہلی بار ووٹ ڈالے تھے کیونکہ یہ دور زبردست بائیکاٹ کا تھا اور عوام کسی طرح اس کال کے خلاف نہیں جاسکتے تھے ، اور دوسری بار ۲۰۱۴ میں بھی کم و بیش یہی صورت حال تھی ، جس میں ڈار کو پھر ایک بار اپنے دہی علاقوں نے ووٹ دے کر اسمبلی پہنچا دیا تھا ، اس بار کانگریس کو اس کی اور اپنی اصل فٹننگ کا پتہ بھی چلے گا اور اس ہنگامہ خیز بستی میں ان کی کیا پوزیشن ہے واضح ہوجائے گی ، ، پی ڈی پی کے نو عمر ، پڑھے لکھے عرفان علی فرے میں ہیں ابھی عمر کے لحاظ سے بھی چھوٹے ہیں اور ظاہر ہے سیاسی لحاظ سے بلوغیت کی طرف گامزن ہیں ، میو نسپل ممبر منتخب ہوئے تھے ، آپ کو معلوم ہی ہے کہ پی ڈی پی کا پیچھا ۲۰۱۴ کے کالے سائے کر رہے ہیں جب محبوبہ نے بی جے پی سے تعاون کیا تھا اور اب بھی وہ کوئی بہتر نریٹیو ان انتخابات میں نہیں بنا پائی ، سو منزل تک کے راستے دشوار ہی ہیں ، اس بار سوپور کے ہی ایڈو کیٹ محمد لطیف داند صاحب بھی فرے میں ہیں ، یہ بنیادی طور پر ایک نیشنل گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو نیشنلی ہی بتاتے ہیں ، لیکن کئی برس پہلے ارشاد صاحب این سی میں شامل ہوئے تھے ، سو منڈیڈیٹ انہیں ہی ملاہے ، ظاہر ہے کہ محمد لطیف داند صاحب یا وانی صاحب کو اس تنطیم سے کوئی اپروول نہیں اور خود اپنے بل بوتے پر میدان میں ہیں، وانی صاحب انجمن کے صدر بھی ہیں اور پچھلے برس یہ انتخابات جیتے تھے شاید اسی جیت نے انہیں اسمبلی انتخابات لڑنے کی طرف مائل کیا ہے ، ان کے فرے میں آنے سے ایک مخصوص طبقے کے وؤٹ یقینی طور پر بٹ جائیں گے ، ارشاد صاحب بھی اسی قبیلے اور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے لازمی طور پر کچھ دوست ا حباب یا رشتے دار وغیرہ لطیف صاحب کے لئے ووٹ کر سکتے ہیں جو ارشاد صاحب کے حق میں کاسٹ ہوتا ، لیکن ایسا سارے حلقے میں نہیں بلکہ یہ نوعیت صرف ہنگامہ خیز بستی سوپور تک ہی محدود ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ سوپور سے آگے جتنے بھی گاوں اور دیہات اس حلقے سے منسلک ہیں وہ لطیف صاحب کو وو ٹ کریں گے کیونکہ ان ائریاز میں این سی کا خاصا اثر ہے اور ہائی کمانڈ کی ہدایت لازمی طور پر ارشاد صاحب کے لئے ہوگی ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی کا ایک بہت بڑا وؤٹ بینک اس حلقے میں موجود تھا ، جنہیں مرحوم سید علی گیلانی کے ساتھ قرابت تھی اور جو ان کی شخصیت یا ان کی تقریروں اور تحریروں سے متاثر تھے ان کے لئے وؤٹ کرتے تھے ، لیکن پانی بہت بہہ چکا ہے ، نہ وہ زمانے رہے ،نہ ان زلفوں میں وہ خم رہے اور نہ ایاز و محمود کی قرابتیں رہیں ، آج اس الیکشن میں کوئی جماعتی جس کا نام شاید منظور احمد ہے الیکشن فرے میں ہے ، ابھی تک میری نظروں سے کسی جماعتی کا بیان نہیں گذرا نہ ہی یہ پتہ چلا کہ کیا وہ لوگ اس کی حمایت بھی کرتے ہیں کہ نہیں ،اور اگر حمایت بھی کریں تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی خاص فرق پڑنے والا ، کیونکہ یہ صاحب بھی صف اول کے جما عتیوں میں شامل نہیں رہے ہیں ، اس کے بعد انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی بچتی ہے تو ان کی طرف سے یہاں ایڈوکیٹ مر سلین الیکشن فرے میں ہیں ، یہ بھی نو عمر ہی سمجھی جاسکتی ہے ، سیاست میں ابھی تک ان کا بھی کوئی خاص نام نہیں لیکن اس الیکشن سے آگے پہچانی جائے گی ، ابھی حالیہ پارلیمانی الیکشن میں انجینئر نے جس طرح عمر عبداللہ کو شکست دی ہے وہ اپنے آپ میں ایک معمہ ہے ، اور یہ معاملات ابھی تک بلکل دھند میں ہیں ، ڈھائی لاکھ ووٹوں سے این سی یا عمر عبداللہ کو ہرانے کے عوامل ذہن میں صاف نظر نہیں آتے ، بہر حال اسمبلی الیکشن میں ووٹ ایک دوسرے نقطہ نظر سے ڈالے جاتے ہیں ہر حلقہ کوشش کرتا ہے کہ بہتر اور ایسے امیدوار کو کامیاب بنادیا جائے جس تک ان کی رسائی ہو ، اور دوسری بات کہ ا س کی انوسیٹ منٹ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ، ظاہر کہ پولٹیشن کی انوسٹمنٹ اس کا وہ عرصہ ہوتا ہے ، وہ وقت اور برس ہوتے ہیں جو وہ کسی پارٹی یا سیاست میں گذارتا ہے ، اس لحاظ سے ابھی یہ سبھی امیدوار بہت پیچھے ہیں کیونکہ ارشاد صاحب ،یہ سب جانتے ہیں مرحوم کار صاحب کے فرزند ارجمند ہیں جنہوں نے ساری زندگی کانگریس کے ساتھ وفا کی اور یہاں منسٹراور دوسرے کلیدی عہدوں پر بھی براجمان رہے ، ، اندرا جی کے بہت ہی قریب تصور کئے جاتے تھے اور ہر لحاظ سے بہت اچھے سیاست داں رہے اور اپنی آخری عمر تک کانگریس کے ساتھ جڑے رہے ۔ان حالات میں بھی جب ان جیسے درجنوں کانگریسی پارٹی چھوڑ کر نئے گھونسلوں میں بسیرا کرنے لگے تھے ، سو ان کا ایک سیاسی بیک گراونڈ ہے جو اور کسی امیدوار میں نہیں، اہم خصوصیت یہ کہ ارشاد صاحب سارے سوپور میں شریف النفس اور سنجیدہ شخص مانے جاتے ہیں ، اور تعلقات کے لحاظ سے ہر طبقے میں ان کا خاسا اثر ہے ، ایسا اندازہ کیا جارہا ہے کہ وہ لوگ جو این سی کے ساتھ ہم آہنگ بھی نہیں اور اس پارٹی کے ساتھ کسی طرح جڑے نہیں ہیں وہ بھی ذاتی طور پر کئی پہلوؤں کو مدِ نظر رکھ کر ارشاد صاحب کو وؤٹ دیں گے ، ایسا تاثر ہے اور پچھلے کئی روز سے ایک غیر منظم سروے کی رپورٹ سے نتائج اخذ ہو جاتے ہیں ، ، بہر حال اصل لہر یکم اکتوبر کی شام کو ابھر کر سامنے آئے گی ،انتظار کیجئے ، لیکن اس میں کوئی دو رائیں نہیں کہ اس سیٹ پر مرکزی اور سارے کشمیر کی نگاہیں ہیںاور اب تک سوپور سیاسی طور پر جہاں ہنگامہ خیز بستی مانی جاتی ہے وہاں سیاسی طور یہاں کی سیاسی کرنٹیںنئی کروٹوں کا تعین بھی کرتی ہیں ۔
