از:سید نذیر گیلانی
سری نگر میں قائم ہونے والی حکومت میں 5 وزراء نے حلف لیا۔ نئی کابینہ نے جمعرات 17 اکتوبر کو state-hood کی بحالی کے مطالبے کی قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد متفقہ طور منظور ہوئی۔ 5 اگست 2019 کے بعد یہ پہلا بڑا ممکن اور سنجیدہ قدم ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت یہ لوگ، آتش نمرود کے سامنے ڈٹے ہیں۔
وزیر اعلٰی عمر عبداللہ جلد ہی دہلی جاکر "ریاستی” کابینہ کی منظور کردہ یہ قرارداد وزیراعظم نریندر مودی کو پیش کریں گے۔ یہ قرار داد اختیارات کی بحالی اور اظہار رائے پر پابندیوں کے خاتمے کے سلسلے میں ایک اہم ابتداء ہے۔ ان اختیارات کی بحالی سے Gupkar Declaration کی طرف قدم بڑھانا آسان ہوگا۔
عوام کے تعاون اور ہماری contribution سے، سری نگر کی حکومت، خوداختیاری،کا scope بڑھا کر UN template کے تحت موجود unfettered choice کے اہتمام کے لئے اپنے حصے کا کام کر سکتی ہے۔ ہم زبانی کلامی امداد کے لارے زیادہ دیر نہیں لگا سکتے۔ اور دھوکہ دینا بھی جائیز نہیں۔
مظفرآباد میں وزیراعظم کی سربراہی میں دو درجن سے زیادہ وزراء پر قائیم کابینہ اور دوسرے مشیران کے لئے یہ ایک لمحہ آزمائش اور Litmus Test ہے۔ کیا مظفرآباد میں اتنی بڑی کابینہ کا سربراہ وزیراعظم، آزاد کشمیر کو UN template کے مطابق ایک Local Authority کا درجہ دلانے کی مانگ کرنے کی قرارداد پیش کرے گا؟ اور کیا وہ یہ قرار داد لے کر وزیراعظم پاکستان یعنی چئیرمین آزاد جموں وکشمیر کونسل، کو پیش کرنے کے لئے اسلام آباد جانے کے لئے تیار ہے؟ کیا وہ اپنے cause کے لئے پاکستان کے غیر حکومتی مکاتب فکر کے سامنے، اپنا کیس اور درپیش مشکلات پیش کرنے کے لئے محنت کے لئے تیار ہے؟
سری نگر کا وزیر اعلٰی عوام کے ووٹ کے sovereign اختیار سے لیس ہے۔ اس عوامی طاقت کے احترام میں، ہندوستان کی پوری قیادت، عمر عبداللہ کی حلف وفاداری میں سرینگر پہنچ گئی۔ اس میں دو بڑے کشمیری بھائی بہن، راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی بھی تھے۔ ہندوستان کی دوسری بڑی شخصیات بھی تھیں۔ پولیس اور "محکمہ زراعت” کے لوگ بھی تھے۔ لیکن وہ کام کے دائیرے کے اندر ہی رہے۔ راج اور رعب عوام کے ووٹ کا رہا۔
مظفرآباد کا وزیراعظم بقول طارق فاروق سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر، رات کی تاریکی میں، مسلط کیا گیا وزیراعظم ہے۔ یہ احتیاج اور کمزوری ہی ہمارے سیاسی وقار کو مار گئے اور ہم مغل شہزادوں سے، مظفرآباد کے دھوبی بن گئے۔ ہمارے سیاست دان، بار بار اپنے کیس کے بارے میں ریاست کے اندر، اسمبلی، میڈیا اور ریاست کے باہر "چولیں” مارتے رہے۔ محکمہ زراعت میں بھی چول دین موجود ہیں۔ ان چول دینوں کی چولیں، آزاد کشمیر میں مشیر برائے رائے شماری، کیس میں بحث کے دوران سامنے آئیں۔ ایک پیراگراف بہت دلچسپ ہے۔
سپیکر اسمبلی نے ایک چاول مار کر اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا، کہ UN مشیر برائے رائے شماری کا تقرر کرے۔ اسے Plebiscite Advisor اور Plebiscite Administrator میں فرق، آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ سپیکر صاحب ہمارے دوست ہیں، مگر کیا کریں۔ وہ بلاول ہاوس کی شاباش ہی، کلمہ آخر سمجھتے ہیں۔ جبکہ بلاول کے نانا شیخ عبداللہ کی پاکستان آمد پر، جیپ کے ساتھ لٹک کر پبلک میں، متعارف ہوئے۔ کشمیر کا بھٹو خاندان پر کئی حوالوں سے احسان ہے۔
وزیر اعظم نے بھی پچھلے دنوں ایک tv پروگرام میں ایسی ہی چولیں ماری کہ ، Plebiscite Advisor کی تقرری تو کرتے، لیکن وہ کام کیا کرے گا۔ خاتون اینکر، رعب میں آگئی، ورنہ کہتی، جناب یہ آئینی ذمہ داری 1970 سے پوری نہیں ہوئی، اور اگر Plebiscite Advisor کے کام کی تفصیل درکار ہے تو آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے اپریل 1999 کے فیصلے کو پڑھیں۔ یہ فیصلہ جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق JKCHR کی دسمبر 1992 کی پٹیشن پر دیا گیا ہے۔ تیسری چول آزاد کشمیر کے 5 بڑے سیاست دانوں نے ایمبیسڈر عبدالباسط کے پروگرام میں، نیشنل tv پر ماری۔
ضرورت اس بات کی ہے، کہ مظفرآباد میں بھی، ہمارا وزیراعظم عوامی ووٹ کے sovereign اختیار سے لیس ہو۔ علم کشمیریات سے لیس ہو۔ وہ ریاست کی ذمہ داری اسی طرح نبھانے، جس طرح وزیر اعلٰی عمر عبداللہ نے جموں کو 3 وزارتیں دے کر نبھائی۔ ڈپٹی وزیراعظم بھی جموں سے لیا گیا۔ Inclusiveness کا احساس اور اس پر عملدرآمد، آر پار بہت ضروری ہے۔
اب دیکھنا ہے، کی سرحد دوسری پار عوام کے ووٹ سے برسراقتدار آنے والی حکومت اور عام ووٹر کی ہم، مظفرآباد اور بیرون ریاست سے کیا، مدد اور راہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے، کہ حکومت پاکستان اور پاکستان کے دوسرے مکاتب فکر کی، کشمیریوں کی Political Moral and Diplomatic support کی قطب نماء درست نہیں رہی ہے۔ یہ misdirected چلی آرہی ہے۔
حکومت پاکستان اور یہاں کے مکاتب فکر کی یہ support صرف آزاد کشمیر اور کسی ایک مکتب فکر کے لئے ہر گز نہیں بلکہ یہ سپورٹ پوری ریاست، اور UN template پر کام کرنے والے ہر کشمیری اور غیر کشمیری کے لئے ہے۔
