وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے واڈون کشتواڑ جاکر آگ سے متاثرہ کنبوں سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔ اس طرح سے انہوں نے عوام کو احساس دلایا کہ حکومت ان کی مشکلات سے بے خبر نہیں ہے ۔ اس موقعے پر انہوں نے لوگوں کو اطمینان دلایا کہ ان کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ عمر عبداللہ کی قیادت عوامی سرکار کے قیام سے جموں کشمیر میں ایک نئے اور پر جوش دور کا آغاز ہوگا ۔عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ مرکز کے ساتھ اعتماد بڑھانے اور مضبوط رشتے قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایسا ہوا تو ریاست کا درجہ بحال کرانے اور لوگوں کو خوشحال بنانے میں مرکزی سرکار کی امداد میسر آئے گی ۔ اس سے یقینی طور عوام کو مالی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے لئے سخت محنت کرنا پڑے گی ۔اس کے علاوہ مرکز میں موجود سب سے بڑا اپوزیشن اتحاد انڈیا بلاک بھی عمر عبداللہ کے ساتھ ہے ۔ ایسا پہلی بار ہے کہ کشمیر کی حکومت کو مرکزی سرکار اور وہاں کی اپوزیشن دونوں کی حمایت حاصل ہے ۔ لوگوں نے بھی انتخابات جیتنے میں این سی اور بھاجپا دونوں کی مدد کی ۔ کشمیر اور پیرپنچال کے علاقوں میں ہوشیار ووٹروں نے دوسرے تمام سیاسی حلقوں کو مسترد کرکے این سی کو وٹ دے کر کامیاب بنایا ۔ جو اکا دکا سیٹیں این سی کے ہاتھ سے نکل گئیں اس میں پارٹی کا اپنا قصور رہا ۔ این سی کے باغی امیدواروں نے پراکسی امیدوار کھڑا کرکے پارٹی منڈیٹ کو نظر انداز کیا ۔ اس کے باوجود عمر عبداللہ بھاری عوامی منڈیٹ اور مرکز کی اعانت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ ایسی مضبوط حکومت جس کو مرکز سے ہر قسم کی مدد ملنے کی امید ہے ۔ لوگ بھی چاہتے ہیں کہ اس طرح کی حکومت کا سایہ ان کے سرپر موجود رہے ۔عوامی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ اب سیاست سے اوپر اٹھ کر عوام کی مجموعی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرے ۔
کشمیر کے عوام نے پچھلے چند سالوں کے دوران کئی طرح کی سختیاں اور صدمے برداشت کئے ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ملی ٹنسی اور افراتفری کے ماحول میں عوام کے لئے کام کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن ایک پر امن ماحول کے باوجود لوگ سکون سے محروم رہے ۔ اس دوران یہاں کے عوام سخت بے چینی اور اضطراب سے دوچار رہے ۔ پورے ملک میں یہی ایک خطہ تھا جہاں جمہوری عمل کو معطل کرکے عوام کو ان کی اپنی حکومت سے محروم رکھا گیا ۔ اس سیاسی بے یقینی کی وجہ سے لوگ خود کو بے سہارا محسوس کررہے تھے ۔ یہاں کے عوام نے ستھر سال جمہوری نظام اور اپنے ووٹوں سے بنی حکومتوں کی موجودگی میں گزارے تھے ۔ پھر اچانک ان سے ایسا ماحول یکا یک چھین لیا گیا۔ایل جی انتظامیہ اس بات سے باخبر تھی کہ اس طرح کا ماحول لوگوں کے لئے اجنبی ماحول ہے ۔ انتظامیہ نے عوامی دربار بلاکر اور اس طرح کے بہت سے پروگرام منعقد کرکے لوگوں کے نزدیک آنے کی کوشش کی ۔ لوگوں کے مسائل ترجیحاتی بنیادوں پر حل کئے گئے اور لوگوں کے مطالبات پوری توجہ سے سنے گئے ۔ اس کے باوجود لوگوں اور انتظامیہ کے درمیان کسی حدتک دوری قائم رہی ۔ اب نئی سرکار بننے سے اندازہ ہے کہ لوگوں کی دوری اور ان کے اندر پائی جانے والی مایوسی ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔ اس سے انکار نہیں کہ ہر حکومت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور راتوں رات تمام مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم فوری نوعیت کے کچھ ایسے مسائل ہیں جن کو جلد از جلد حل کرنا لازمی ہے ۔ سیاسی بے چینی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابات سے چن کر آئے عوامی نمائندے سیکریٹریٹ میں بیٹھنے اور گپ شپ میں اپنا وقت ضایع کرنے کے بجائے عوام کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھنے پر توجہ دیں ۔ اپنی الیکشن مہم کے دوران ان نمائندوں نے مختصر مدت کے اندر اپنے حلقے کی تمام بستیوں میں جاکر ان سے ووٹ مانگے ۔ کہیں دو چار ڈھوکے بھی نظر آئے تو وہاں جاکر مکینوں سے ملاقات کرکے حمایت دینے کے لئے کہا گیا ۔ بلکہ گھر گھر جاکر لوگوں سے ووٹ مانگے گئے ۔ اب ایسے نمائندوں کے لئے ضروری ہے کہ کامیابی اور نئی سرکار بننے کے بعد اپنے اندر الیکشن میں ابھرا ہوا جذبہ بحال رکھیں اور غریب عوام کے ساتھرابطہ بحال رکھیں ۔ ایسے لوگ غربت کے ستائے ہوئے ہیں ۔ ان کے کوئی بڑے مسئلے نہیں ہیں جو حل کرنا ممکن نہ ہو ۔ بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن کو چٹکی بجاکر حل کیا جاسکتا ہے ۔ عوامی نمائندوں کو سوچنا چاہئے کہ ان لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بے بسی کی زندگی نہیں گزارنی ہے ۔ بلکہ انہیں اس سطح سے اٹھاکر آگے بڑھانا ہوگا ۔ یہ کام اب غریب لوگوں کے وہ نمائندے کرسکتے ہیں جن کو انہوں نے ووٹ دے کر کامیاب بنایا ۔ عمر عبداللہ نے سیکریٹریت میں جاکر پہلا کام یہ کیا کہ پولیس کو ہدایت دی گئی کہ روایتی ہٹو بچو سے اجتناب کیا جائے ۔یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ایسا قدم اٹھایا گیا ۔ اب ایسے احکامات کی روشنی میں آگے کا روڈ میپ تیار کرنا ہوگا ۔ یہی سب سے اہم کام ہے ۔ عمر سرکار آگے جاکر اپنی ذمہ داریاں یاد رکھے گی یا اپنے کابینہ ساتھیوں کے دائرے میں آکر عوام کو بھول جائے گی ۔ اس حوالے سے لوگوں کی نظریں عمر عبداللہ اور ان کی پارٹی پر لگی ہیں ۔