از:جہاں زیب بٹ
یوٹی کے نو منتخب وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے حسب وعدہ پہلی ہی کابینہ میٹنگ میں جموں کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کی سفارش کی اور اس ضمن میں ایک قرارداد پاس کی گیی ۔اہم بات یہ ہے کہ ایل جی منوج سنہا نے کابینہ کی قرار داد کو اپنی منظوری سے نوازا ۔کہا جارہا ہے کہ قرارداد کا مسودہ لیکر وزیراعلی عمر عبداللہ پرایم منسٹر مودی کے پاس جا رہے ہیں تاکہ انھیں جموں کشمیر سے چھینا گیا ریاستی درجہ لوٹا نے کی درخواست کی جائے۔
جموں و کشمیر کی تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں نے ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق کابینہ قرار دادکو ناکافی اور عمر عبداللہ کے انتخابی وعدوں کے برعکس قرار دیا ہے ۔سجاد لون اور انجینیر رشید سے لیکر وحید الرحمان پرہ تک اپوزیشن جماعتوں کے جتنے بھی چھو ٹے بڑے لیڈر ہیں سب یہی کہہ رہے ہیں کہ این سی انتخابی مہم کے موقعہ پر اپنایے گیے موقف سے انحراف کی مرتکب ہورہی ہے ۔تب وہ دفعہ 370 کی بحالی کی رٹ لگارہی تھی اور ووٹر وں سے وعدہ کررہی تھی کہ خصوصی پوزیشن کی واپسی اس کی اولین تر جیح ہے ۔لیکن اب وہ بڑے مطالبے سے نیچے اتر کر سٹیٹ ہڈ پر اٹک رہی ہے ۔اپوزیشن لیڈروں کی دلیل یہ ہے کہ سٹیٹ ہڈ کا وعدہ پرایم منسٹر مودی اور ہوم منسٹر امت شاہ نے پارلیمنٹ کی فرش پر کیا ہے۔ عمر عبداللہ کو وہ ممتاز آءینی حیثیت مانگنی چا ہیے جو جموں کشمیر کا طرہ امتیاز تھا۔سجاد لون،انجینیر رشید اور وحید پرہ وغیرہ ہی نہیں بلکہ خود این سی کے ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ اس بات پر مصر ہیں کہ عمر عبداللہ کی قیادت والی حکمران این سی جماعت اسمبلی کے پہلے ہی سیشن میں جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی سے متعلق قرارداد ایوان میں لایےاور اگر ایسا نہ کیا گیا تونو زاید اسمبلی کی خاموشی کو 8 اگست 2019 کی غیر معمولی آءینی تبدیلی کی توثیق سے تعبیر کیا جا یے گا۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کو یوٹی بناکر ریاستی درجہ مذاکراتی میز کے لیے رکھا گیا۔ نو منتخب اسمبلی بڑی چیز مانگے تو مکمل اختیارات کے ساتھ سٹیٹ مل سکتی ہے ورنہ کم ترین اختیارات کی حامل سٹیٹ ملنے کا اندیشہ ہے۔
حالیہ اسمبلی الیکشن میں بھاری شکست سے دوچار ہو نے کے بعد انتخابی وعدوں کے مبینہ انحراف پر اپوزیشن کا عمر عبداللہ کو گھیرنا قابل فہم ہے۔لیکن مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن کے دباؤ سے زیادہ پارٹی صفوں سے دی جارہی “فتح” اضافی سردرد بننے کا اندیشہ پیدا ہو رہا ہے۔ادھر مرکزی سرکار کو اہم اشوز پر ہم نوا بنانے کا چلینج بھی درپیش ہے ۔وزیراعلی کو احساس ہے کہ وہ مرکز سے پنگا مول نہیں لے سکتے۔ ان کے پاس جادویی چھڑی بھی نہیں کہ سیاسی عجوبے ظاہر ہو سکیں ۔ان کا تازہ سیاسی سفر کٹھن ہے اور ان کو کچھ حاصل کرنے کے لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے۔مبصرین کے مطابق انھیں کچھ اس قسم کا رویہ اور حکمت عملی اختیار کرنی ہے کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ
ٹو ٹے۔دفعہ 370 پر لوگوں سے کیا گیا وعدہ ،اپوزیشن کا دباؤ ،اندرونی صف سے نکل رہی “فتح” پر انکی توجہ مبذول ہو جایے اور خصوصی پوزیشن کی واپسی ہی اول و آخر تر جیح بن جا یے تو سرکار بنا نے کا کیا فایدہ ؟ تب تو الیکشن میں حصہ لینا ہی بے کا ر تھا۔عمر عبداللہ حکومت بہت کچھ کرسکتی ہے اور بہت کچھ
کر نے سے قاصر ہو گی۔جو چیزیں موجودہ ملکی سیاسی حالات میں ناممکن الحصول ہیں ان کو عمر عبداللہ سرکار کی کامیابی کی کسوٹی بنانا قرین انصاف نہیں ہے ۔بہت سے کشمیری اعتراف کر رہے ہیں کہ داناوں کی بات ہم نے بروقت نہ مانی مگر اب گزشتہ تیس پنتیس سالہ تجربہ نے اس حقیقت کو آشکارا کردیا کہ آنکھیں بند کر کے ناممکن الحصول چیزوں کے ساتھ اٹک جا نے اور ان کو محور بنانے کا آخر کار نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو تا کہ ممکن الحصول چیزیں بھی ہاتھ سے چھو ٹ جا تی ہیں۔اپوزیشن کی اسمبلی قرارداد کی تجویز کی معقولیت پر بحث کی گنجایش ہے لیکن کشمیر کی خصوصی پوزیشن پر اٹکنے اور اس کو محور بنایا جایے تو سٹیٹ ہڈ سمیت بقیہ ممکن الحصول مطالبات منوانے کی لڑایی کا مرحلہ بھی ہاتھ سے نکلے گا ۔ دفعہ 370بہت بڑا مدعا ہے جس کے حل کے لیے پارلیمنٹ کی طاقت چاہیے جو کل کو کانگریس کے ہاتھ میں بھی ہو تو وہ بھی عمر عبداللہ کی مدد کرنے کو تیار نہ ہو گی ۔عمر عبداللہ سے اتنا ہی مانگو اتنی ہی توقع رکھنی ہے جو اس کے بس میں ہے۔ان کے اختیارات بے شک محدود ہیں لیکن عوامی منڈیٹ نے ان کو ایک موثر آواز بنادیا ہے۔ یہ عوامی منڈیٹ کی ہی طاقت ہے کہ کابینہ نے سٹیٹ ہڈ کی بحالی کی سفارش کردی اور سینیر وزیر ستیش شرما سر اٹھاکر بولے کہ جموں کشمیر کو کچھ نہ کچھ دے دو دفعہ 370 نہ سہی تو 371 ہی دیےدو ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عمر عبداللہ کے ہاتھ میں حکومتی طاقت ہے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔سالم نہ سہی کچھ نہ کچھ مل سکتا ہے ۔ سالم پر اٹک جانے کا انجام کشمیریوں سے بہتر کون جانے؟