نئی سرکارنے تعلیمی سیشن کو واپس اس پوزیشن پر لانے کا یقین دلایا ہے جہاں یہ 2019 سے پہلے موجود تھا ۔ موجودہ سرکار کی وزیرتعلیم سکینہ ایتو نے کہا ہے کہ صدر راج کے دوران جس طرح سے تعلیمی سیشن میں تبدیلی لائی گئی وہ مقامی ضرورتوں کے مطابق صحیح نہیں ہے ۔ اس اقدام کی نفی کرتے ہوئے وزیر موصوفہ نے متعلقہ حلقوں سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پرانے نظام کو بہتر قرار دیا ۔وزارت تعلیم سنبھالنے کے فوراََ بعد انہوں نے ایک تقریب میں بولتے ہوئے اس موضوع پر خیالات کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ طلبہ کی بہتری کے لئے حکومت نیا قدم اٹھانا ضروری سمجھتی ہے ۔ بعد میں انہوں نے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے میٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی سیشن کو تبدیل کرنا لازمی ہے ۔ تاہم یہ بات واضح کی گئی کہ نئے فیصلے کا اطلاق رواں سال کے بجائے اگلے سال سے ہوگا ۔ وزیر تعلیم کے اس اقدام کی کئی سیاسی حلقوں نے حمایت کی ہے ۔ خاص طور سے طلبہ اور ان کے والدین نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے صحیح فیصلہ قرار دیا ۔ اسی طرح سے دربار مو کی قدیم روایت کو بحال کرنے کا منصوبہ بھی سامنے لایا گیا ۔ کابینہ میں جموں خطے سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر نے انکشاف کیا کہ دربار مو کے بارے میں صلاح مشورہ ہورہاہے اور جموں اور سرینگر میں باری باری دربار منتقل کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ متعلقہ وزیر کا کہنا ہے کہ دربار مو کی روایت کو منقطع کرنے سے جموں کی تجارت پر سخت منفی اثرات پڑے ہیں ۔ ان اثرات کو کم کرنے کے لئے دربار مو کی روایت کو از سر نو بحال کیا جارہاہے ۔ اس طرح سے نئی سرکار نے اپنے ایجنڈا پر عمل در آمد شروع کیا ہے ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ این سی سرکار عوام کے مفاد میں بہتر سمجھے جانے والے اقدامات کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔
جموں کشمیر میں قائم ایل جی انتظامیہ نے دو سال پہلے تعلیمی سیشن کو مارچ سے بدل کر نومبر میں لینے کے احکامات دئے ۔ انتظامیہ کے اس فیصلے سے عوام خاص کر طلبہ سخت ناخوش تھے اور کئی حلقوں نے بر وقت اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ تاہم اعتراض کو یہ کہہ کر مسترد کیا گیا کہ پورے ملک میں جو تعلیمی نظام اور میقات نافذ ہے اسی کو جموں کشمیر میں بھی رائج کیا جارہاہے ۔ ون انڈیا تصور کے تحت تعلیمی سیشن میں یہ بڑی تبدیلی لائی گئی ۔ یہ کوئی ایسی تبدیلی نہ تھی جس کے اثرات سے انکار کیا جاسکتا ہے ۔ جموں کشمیر میں موسمی حالات کی وجہ سے نظام تعلیم کو ترتیب دیتے ہوئے سرمائی تعطیلات سے پہلے امتحانات کا انعقاد کیا جاتا تھا ۔ مرکزی وزارت داخلہ نے امتحانات لینے کے نظام کو بدل کر نومبر کے بجائے مارچ میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ۔ اس وقت کئی حلقوں نے اسے غیر ضروری قرار دیا اور اس اقدام کی مخالفت کی ۔ لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اور اپنی پسند کے نظام میقات کو نافذ کیا ۔ اب نئی سرکار نے اگلے سیشن سے امتحانات نومبر کے بجائے مارچ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تعلیمی میقات کے علاوہ دربار مو کی پرانی روایت کو بحال کرنے کا اشارہ بھی دیا جارہاہے ۔ موجودہ سرکار نے جموں کے عوام کو پہلے ہی یقین دلایا ہے کہ ان کے لئے دربار سرینگر کے ساتھ جموں شہر میں بھی سجایا جائے گا ۔ جموں کے عوام کے علاوہ گورنمنٹ سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے ملازم بھی اس اقدام کی مخالفت کرتے تھے ۔ اب نئی سرکار کے ایک کابینہ درجے کے وزیر کا کہنا ہے کہ دربار مو کی روایت وک ضرور بحال کیا جائے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ دربار مو ترک کرنے کی وجہ سے جموں کی تاجر برادری کو سخت نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ دربار مو کی وساطت سے انہیں جو آمدنی حاصل ہوتی تھی وہ یکمشت ٹھپ ہوکر رہ گئی ۔ تاجر طبقے کے مفادات کے پیش نظر دربار مو کو پھر سے بحال کیا جائے گا ۔ دربار مو رواں سال سے بحال ہوگا یا اگلے سال اس طرح کا قدم اٹھایا جائے گا ابھی تک واضح نہیں ہے ۔ تاہم وزیرموصوف کے مطابق یہ فیصلہ ہورہاہے کہ دربار مو کی روایت کو ضرور بحال کیا جائے گا ۔ وزیر کی طرف سے کئے گئے اعلان سے جموں کے عوام کے اندر خوشی کی لہر پائی گئی ہے ۔ ڈوگرہ راج سے جاری اس روایت کو ختم کرنے کے اقدام نے جموں کے عوام کو سخت مایوس کیا تھا ۔ تاہم نئی سرکار نے انہیں خوش خبری سنائی کہ اس روایت کو پھر سے بحال کیا جارہاہے ۔ اس خبر سے ان کی مایوسی مبینہ طور خوشی میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ منگل کو اس حوالے سے بتایا گیا کہ نئی سرکار اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کررہی ہے اور بہت جلد عوم کو باخبر کیا جائے گا ۔ تعلیمی سیشن کی واپسی اور دربار مو کی بحالی موجودہ سرکار کے دو اہم اقدامات ہیں ۔ ان اقدامات کے حوالے سے ایل جی انتظامیہ کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو پہلے ہی عوام نے نامناسب قرار دیا تھا ۔ بلکہ انتظامیہ کو خبردار کیا گیا تھا کہ عوامی سرکار ایسے اقدامات کو ضرور اپنی پہلی پوزیشن تک لائی گئی ۔ تاہم اس وقت کی انتظامیہ نے اس طرح کے مشوروں کو سننے سے انکار کیا اور خود اعتمادی کا اظہار کیا ۔ نئی سرکار کے اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا ناگزیر ہے ۔ اس سے فریقین کے اندرا عتماد میں کیا کوئی فرق آئے گا یہ دیکھنا باقی ہے ۔ تاہم نئی سرکار کے ان فیصلوں کو دوسرے کئی سیاسی حلقوں کی حمایت مل رہی ہے ۔