از:جہاں زیب بٹ
عمر عبداللہ دہلی میں مشن سٹیٹ ہڈ پر ہیں اور وہ باجپا حکومت میں چوٹی سطح کے وزرا سے ملاقاتیں کرچکے ہیں ۔انہوں نے پرایم منسٹر مودی سے بھی ون ٹو ون ملاقات کی ۔یوٹی کی باگڑور سنبھالنے کے بعد یہ عمر عبداللہ کا پہلا دلی دورہ ہے۔باور کیا جا تا ہے کہ عمر عبداللہ نے ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق یو ٹی کابینہ قرار داد پر پرایم منسٹر مودی اور سینیر مرکزی وزرا کی حمایت طلب کی تاہم ابھی تک مرکزی حکومت کے ردعمل کے بارے کویی اشارہ ملا ہے نہ کسی یقین دہانی کی کویی مصدقہ اطلاع دستیاب ہے۔
مبصرین کے مطابق عمر عبداللہ کا دلی دورے پر نظریں ہیں ان کے مشن ریاستی ہڈ کی کامیابی بر انکی سرکار کی فعالیت ,انتظامی صلاحیت اور نمایاں کام کاج کا دارومدار ہے۔
عمر عبداللہ نے پے شک حکومتی کام کاج سنبھالا ہے ۔ان کی حلف برداری کو پند رہ واڑہ ہو گیا لیکن ابھی تک اختیارات کی منتقلی ایک معمہ ہی ہے ۔یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ یو ٹی کی نمایندہ حکومت کو کتنے اختیارات سونپے جارہے ہیں اور کہاں کہاں اس کو لاچار رکھا جا رہا ہے۔ماہرین سیاست کے مطابق حکومت تو بنی لیکن ایل جی اور وزیراعلی کے اختیارات کے حوالے سے کوءی حد متارکہ کھینچی نہیں جاتی ۔
اختیارات کی تقسیم اور تفویض کا معاملہ لٹکتے رہنے سے انتظامی امور متاثر ہورہے ہیں اور بے چارے سایل و محروم لوگ پسے جا رہے ہیں۔ایل جی انتظامیہ کے پاس جو فایلیں گیی تھیں اورجو فریادیں جمع ہو یی تھیں ان کے بارے شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ وہ اب سول سیکرٹریٹ سرینگر میں دھول چاٹ رہی ہیں ۔کام منجمد ہواہے ۔شنوایی کا عمل رکا پڑا ہے اور فریاد رسی کا دروازہ معلوم نہیں پڑتا جس کو حاجت رہایی کے لیے سایل کھٹکھٹا تا۔۔انتظامی امورات پر غیر یقینت چھا گیی ہےاور سایل لاچار ہیں ۔جمہوری حکومت کے قیام سے لوگ امید کررہے تھے کہ انکی مشکلات کے فوری ازالے کی شاہراہ کھل جایے گی لیکن اختیارات کی تقسیم وتفویض کا معاملہ کھٹایی میں رہنے سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ شکایت کرتے ہیں کہ ایل جی انتظامیہ میں سیکرٹریٹ کے اندر احسن طریقے سے اور سرعت کے ساتھ معمول کا جو کام کاج ہو تا تھا وہ پھی رک گیا ہے ۔عبداللہ حکومت بننے کے بعد سول سیکرٹریٹ میں لوگوں کا تانتا بندھنا شروع ہوگیا ہے۔انکی ملاقاتیں وزراء ، وزیراعلی اور ان کے مشیر ناصر اسلم وانی سے تو ہوتی ہے مگر وہ جب اپنی درخواستیں اور فایلیں لیکر سول سیکرٹریٹ کے کسی محکمے میں جاتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر مایوس اور بد دل کیا جا تا ہے کہ ان کا کام ابھی نہیں ہو پایے گا کہ اوپری سطح پر فیصلہ
ہو نا باقی ہے کہ کون محکمہ کس کی تحویل میں آیے گا ۔اس غیر یقینی صورتحال نے عام و خاص کو پریشان کردیا ہے ۔اختیارات کی تقسیم وتفویض کا فیصلے لینے میں جو دیر ی کی جارہی ہے اس سےانتظامی کا م کاج مفلوج ہو گیا ہے اور بے چارے سایلوں اور درخواست گزاروں کو سول سیکرٹریٹ کے فضول چکر کاٹنے پڑ ر ہے ہیں۔
