ازـش، م ،احمد
وزیرعلیٰ عمر عبداللہ نے جس لمحہ دوسری بار وزارتِ عالیہ کا حلف اُٹھایا‘ اُسی مبارک ساعت سے جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونا شروع ہوا۔ بے لاگ تاریخ کا یہ باب اپنے سیاسی اثرات ومضمرات کے لحاظ سے بہت زیادہ اہم ثابت ہونے والا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یوٹی کےوزیراعلیٰ بن کر عمر عبداللہ عملاً ایک کثیر الجہت امتحان گاہ میں قدم رنجہ فرماگئے ۔ اورامتحان بھی کوئی عام امتحان نہیں بلکہ ایک تیز دھار تلوار پر پابرہنہ ہوکر چلنے کا حوصلہ دکھانا مقصود ہے۔ تاریخ کا غیر جانب دار محتسب تاک میں بیٹھا ہوا تاڑ تا ر ہے گا کہ کیا عمر عبداللہ اس امتحان میں کا میاب رہتے ہیں ؟ کیا وہ عوام سے کئے گئے اپنے انتخابی وعدوں کی لاج رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں؟ کیا شوپیان ‘ ترال اور گگن گیر سونہ مرگ جیسے انسانیت سوز واقعات سے اُن کے پائے استقلال میں کوئی لرزش آئی؟ کیاوہ سوزِ درُوں کی قوت مجتمع کر کے پوری پامردی کے ساتھ ایک جانب اندھیر نگری کے قاصد نامعلوم امن دشمن عناصر کو پچھاڑ لیں گے ‘ دوسری جانب کیا وہ بندوق کی جگہ صندوق کا پھریرا لہرانے اور جموں کشمیر میں امن واُخوت کی جوت جگانے میںآگے بڑھ پائیں گے؟تاریخ کی بے لاگ نگاہیں امتحانی ہال میں موجود وزیراعلیٰ کے قول وفعل اور حرکات وسکنات کے تعاقب میں ہمہ وقت لگی رہیں گی۔ عمرصاحب اس کڑے امتحان میں پھونک پھونک کر قدم رکھ کر اعلیٰ نمبرات حاصل کریں ‘ اس کے لئےجموں کشمیر کے تمام امن پسند‘ انصاف نواز اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے لوگ دعاگو ہیں ‘ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ بطور وزیراعلیٰ اور بہ حیثیت پارٹی لیڈرعمر صاحب کومکمل کامیابی نصیب ہو۔ یہ اہم مشن صرف دعاؤں اور نیک خواہشات کے بل پر کرامتی انداز میں خود بخود پایہ ٔ تکمیل کو پہنچ جائے ‘ ایسا سوچنا بھی دنیائے حقیقت کے اصول وضوابط اور اسلوبِ کار کے منافی ہے ۔ وزیراعلیٰ عمر اگر حالات کی ناموافقت کے باوجود ذاتی ایثاروقربانی ‘ خلوص ‘ پامردی ‘ بالغ نظری ‘اُمیدو رجائیت کو اپنی طبیعت ومزاج کا خاصہ بناتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے معاشی ‘ سماجی اور اخلاقی طور اندھیاروںمیں جی رہے لوگوں کے لئے بذاتِ خودایک شمع ِفروزاں بن کر اُن کی زندگیوں میں اُجالا لانا ہوگا۔اس مقصد کے لئے اُنہیں اپنی سیاسی صلاحیتوں اور انتظامی خدمات کا تیل حکومت کے ہر بجھےدئے میں ڈالنا ہوگا تاکہ اُن کی لیڈر شپ میں لوگوں کے لئے روشنیوں اور اُمیدوں کا سفر رات دن جاری رہنا ممکن ہوسکے۔
روایت یہ رہی ہے کہ ہر نئی جمہوری حکومت اپنے ابتدائی سودن کے لئے اپنے قابل ِ حصول اہداف کا علانیہ یا غیر علانیہ خاکہ پیش نظر رکھتی ہے کہ ا س دوران حکومت کن امورِ سلطنت پر ترجیحی نگاہ مرکوز رکھے گی۔ وزیراعلیٰ نے اپنے لئے ایسا کوئی نقشِ راہ مرتب کیا ہے یا نہیں‘ وہ صیغۂ راز میں ہے مگر انہوں نے پہلی کابینی میٹنگ میں سٹیٹ ہُڈ کی بحالی کی ایک تاریخی قرارداد منظور کر کے اپنے ایک اہم انتخابی وعدے کاا یفا کیا۔ اس وقت عمر صاحب بہ حیثیت وزیراعلیٰ ملک کے وزیرداخلہ امیت شاہ کے بعدوزیراعظم مودی جی سے ملاقات کر کے اُن کو بہ نفسِ نفیس قرارداد پیش کرچکے ہیں اور اس موضوع پر دونوں ہستیوں سے تبادلۂ خیال کر چکے ہیں۔ پی ڈی پی اور ریاستی بھاجپا کو یہ قرارداد ایک آنکھ بھی نہ بھائی مگر پیپلز کانفرنس کے واحد ممبر اسمبلی سجاد لون صاحب کامشورہ تھا کہ عمر صاحب اپنے اولین کیبنٹ اجلاس میں مرکز سے دفعہ ۳۷۰ کی واپسی کا باضابطہ مطالبہ کریں ‘ اگر ایسا کیا جائے گا تو وہ بھی اس مطالبے کی حمایت کریں گے ۔ اس پر حکومت کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ بہر حال آثار وقرائن سے لگتا ہے کہ سٹیٹ ہُڈ قراداد کا انجام ماضی کی آ ٹونامی قرارداد جیسا تلخ نہیں ہوگا۔
وزیراعلیٰ اس کھلے راز سے واقف ہیں کہ گزشتہ دس سال سے یہاں جو سیاسی خلا قائم رہا ‘ اس سے عام لوگوں کے لئے جابجا مشکلات کے خار زار اور مسائل کے گھنے جنگل اُگ آئے ہیں ۔ اگلے سودن میں چیف منسٹر کو عوام کو درپیش مسائل و مشکلات سے پنڈ چھڑوانے کے بارے میں کوئی حکمت ِعملی وضع کرناہوگی۔ وہ جہاں کہیں بھی دورے پر جائیں گے ‘اُن کاا ستقبال وہاںزندہ باد پائندہ باد سے ضرورہوگا مگر ان نعروں کے شوروغوغا اور ڈھول باجے کے جشن میں عوامی مسائل کے انبار‘ لوگوں کی کسمپرسیاں ‘ سائلوں کی بھیگی پلکیں ‘ مصیبت زدہ گاں کی ٹھنڈی آہیں‘ نامساعد حالات ومشکلات کے بھینٹ چڑھے لو گوں کی سرگزشتیں دب کر نہیں رہنی چاہیں ۔ ایسا بھی نہیں کہ عمر عبداللہ جموں کشمیر کو لاحق گھمبیر عوامی مسائل سے نابلد ہوں۔ وہ زمینی حقائق کے بارے میںہم اور آپ سے زیادہ جانتے ہیں ‘ وہ موقع شناس ہیں اور موزون وقت پر دُکھتی رگ پر انگلی رکھنے کا سیاسی منتر بھی آزماتے رہتے ہیں۔ اُن کی نظریں نہ صرف عوامی جذبات کی پر واز پر ہیں بلکہ اس تعلق سے مختلف الخیال حلقوں سے اُن کاربط وتعلق بہت گہرا ہے ‘ اور اُن تک معلومات بہم پہنچتی رہتی ہیں کہ عام لوگ اُن سے کیا کیا آس اوراُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اُن کو عوام الناس سے ووٹ کی شکل میں توقع سے زیادہ جو بھاری اعتماد ملا‘ اس کے پیچھے یہی ایک ٹھوس حقیقت کارفرما ہے کہ لوگوں کو بھروسہ ہے کہ وقت کے سیاست دانوں کی کھیپ میں کچھ منجھے ہوئے اچھے قائد نعم البدل کے طور ضرور موجود ہو سکتے ہیں مگر عمر عبداللہ کواُن سب پر کئی اعتبارات سے فوقیت حاصل ہے ‘ اُن کی جماعت کی جڑیں عوامی جذبات میں گہرے طور پیوستہ ہیں ‘ گزشتہ دس سال کے عرصے میں نا موافق اور برہم سیاسی موسموں کے باجود این سی کاقلعہ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار کی متحد ومنظم رہا‘ پارٹی کی صفوں میں کبھی کوئی دراڑ پیداہوئی نہ پارٹی قیادت کو آیا رام گیا رام والے قصوں سے پالا پڑا۔ لوگ یہ بھی مانتے ہیںکہ وزیراعلیٰ کی زبان اُن کے دل کی رفیق ہے‘وہ جموں کشمیر کو امن وترقی کی شاہراہ پر شانہ بشانہ ہم قدم دیکھنے کے حامی ہیں ‘ وہ علانیہ طور سیاست کو کرسی کے تنگ دائرے میں محصور کر نےکے بجائے خدمت ِخلق کےپیمانے سے سیاست کاری ماپنے تولنےکے قائل ہونے کا دعویٰ رکھتےہیں۔ جموں میں اُن کی حالیہ تقریر اس سلسلے میںباد پیما کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ یادگار تقریر انہوں نے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے کچھ دن بعد پارٹی صدر دفتر میںورکروں کے اجلاس میں کی ۔ اس موقع پر موصوف نے خود کو بشمول تمام منتخب اراکین اسمبلی عوام کا خادم بناکر پیش کیا۔ پارٹی ایم ایل اے حضرات کو بے پناہ عوامی حمایت کی قدر دانی کرنے ‘ لوگوں کی توقعات پر پورااُترنےاور آنے والے ماہ وسال میں عوامی خدمات سر انجام دینے کا جو عمدہ نقشِ راہ آپ نے کھینچا ‘وہ قابل صد ستائش ہے۔ وزیراعلیٰ کی عوام حامی سوچ کا پتہ اس چیز سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ اُنہوں نے ٹریفک حکام کو اولین فرصت میںعلانیہ ہدایت جاری کردی کہ اُن کی آمدورفت کے دوران ٹریفک کی بندشوں سے لوگوں کو رُکاوٹی تکالیف میں نہ ڈالا جائے ۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹا قدم ہے مگر اس طرزِ فکر سے ان کی عوام دوستی جھلکتی ہے ‘ نیز یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ عمر صاحب اگر اپنے سیاسی ترازو کے ایک پلڑے میں عوامی منڈیٹ کا وزن ڈالتے ہیں ‘تو دوسرے پلڑے میں احساسِ ذمہ داری اور دست ِمسیحائی کے بے غبار جذبات کاوزن ڈالنا نہیں بھولتے۔ یہ صحت مند سیاست ا چھی حکومت اور موثر انتظامیہ کی جانب ایک مثبت پیش قدمی کہلا سکتی ہے۔ توقع یہی ہے کہ وزیراعلیٰ سرکاری بنگلے اور سرکاری کروفر کے پیچھے چھپ جانے کے بجائے عوام کےساتھ ہر وقت دیکھیں جائیں گے‘ عوامی نبضیں ٹٹولنے کے لئے وہ ازخود لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے کے کلچر کو فروغ دیں گے ‘ اپنے سیاسی نصاب کے عین مطابق جب بھی اور جہاں کہیں بھی کوئی فریادی‘ سائلین کاوفد ‘ اپنا پرایا کوئی بھی ہو جو ان سے داد رسی کےلئے ملنے آئے تو خدا کو حاضر وناظر سمجھ کر اُن کا دکھ درد سننا عمر عبداللہ پرواجب ہوگا ‘ سائلوںکی جائز مشکلات کا ازالہ کرنے میں حتی الامکان اپنادست ِتعاون بڑھانا ان کا فرض ِ عین ہوگا ۔ عمر صاحب نے گگن گیر کے دہشت گردانہ حملے میں کام آئے ڈاکٹر شہنواز ڈار مرحوم کے بیٹے کے تعلیمی مصارف ذاتی طور برداشت
کر نے کا اعلان کر کے سوگوار کنبے کا رنج و غم ہلکا کر نے کا عملی اقدام ہی نہ کیا بلکہ ایک قابل تقلید مثال بھی قائم کی۔ تمام عوامی نمائندوں کوحسبِ توفیق اسی طرح دین دُکھیوں کے کام آنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کو عوامی شکایات وحکایات سننے کے لئے شکا یتی سیل کی آن لائن سہولت کے ساتھ ساتھ اپنے سرکاری بنگلے کی ڈیوڑھی بھی تمام سائلوں کے لئے کھلی رکھنی چاہیےاور جو کوئی فرد یا وفد قواعد کی پابندی کے ساتھ اُن کے سامنے اپنے مسائل کا پٹارا کھولے ‘اُس کو یقین واعتماددلانا ہوگا کہ آپ کی بروقت شنوائی ہوگی ‘ آپ کے مسئلے مسائل حل کر نے میں جو بھی مجھ سے ممکن ہوا‘ عوامی خادم ہونے کے ناطے وہ کر گزروں گا۔ حق یہ ہےکہ دوسری مدت ِ کار میں وزیراعلیٰ کو شاید ہی مختلف النوع عوامی مسائل کے گرداب میں پھنسے شہریوں کے گرم گرم آنسو پونچھنے سے فرصت ملے گی مگر اُنہیں ہر وقت یاد رکھنا ہوگا ؎
ایک آنسو بھی حکومت کے لئے خطرہ ہے
تم نےدیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
آج کی تاریخ میںجموں کشمیر میں کو نسا عوامی مسئلہ ہے جو حل کے لئے لٹکا ہوا نہیں‘کون سی انفرادی و اجتماعی مشکل ہےجو پھن پھیلائے وزیراعلیٰ کی طرف اُمید کی نظر سے نہیںدیکھ رہی۔ بے روزگار اپنی روزی روٹی کا منتظر ہے‘ بے لگام مہنگائی کی چکی میں مسلسل پسا جارہاغریب راحت کا متمنی ہے‘ پاور سپلائی میں بے قاعدگی وبے اعتدالی اور بجلی بل کے بھاری بھرکم بوجھ تلے دبا عام آدمی خصوصی رعایت کاخواست گوار ہے‘ماہانہ پانچ کلو راشن پر گزارہ نہ چلاسکنے والے عیال دار مفلس لوگوں کی الگ سے ہاہاکار لگی ہوئی ہے‘ طویل نظر بندی کی مار سہہ رہے اسیرانِ زندان قید وبند سے چھٹکارا چاہ رہے ہیں ‘ بیک جنبش ِ قلم پاسپورٹوں کی معطلی ‘ سی آئی ڈی ویر فکیشن کے زیر التوا مسائل اور ایسے ہی دوسرے درجنوں معاملات سے متا ثرہ لوگ وقت کی عوامی حکومت کی جانب فریاد رسی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ من مانے انداز میں نہیں بلکہ از راہ ِ قانون ایک ٹائم باؤنڈانداز میں ان کا کام نپٹایاجائے گا۔ طلبہ وطالبات موٹی فیسوں اوربے شمار تعلیمی اخراجات سے گلو صی خلا چاہتے ہیں ‘ پانی سڑک نالی صحت وصفائی اور دوسرے بلدیاتی مسئلےمدتوں فوری حل کی راہ تکتے جا رہے ہیں ۔ غرض وزیراعلیٰ کے سامنے بالفعل متعدد سیاسی ‘ معاشی ‘ سماجی‘انتظامی چلنجز کی ایک وسیع الاثر بساط بچھی ہوئی ہے۔ اُنہیں بے نوا لوگوں کی اُمیدوں اور توقعات کی دادارسی کاقدم قدم پر بھرم قائم رکھنا ہوگا ‘ اپنے وعدے وعید کا پاس ولحاظ بھی رکھناہوگا‘ منسوخ شدہ دفعہ ۳۷۰کے حساس موضوع پر پھونک پھونک کر آگے قدم بڑھانا ہوگا تاکہ دوسرے ریاستی امور نزاع و اختلاف کے نذر نہ ہوں۔ عمر عبداللہ کو مرکز کے ساتھ کسی محاذ آرائی کے بغیر اپنی حکومت کے لئے سیاسی موافقت کی فضا ہموار کرنی ہوگی تاکہ جموں کشمیر کی یکساں ترقی کے منصو بوں اور تعمیراتی خاکوں کی تعمیل کے لئے ضروری مالی وسائل کا بندوبست ممکن ہوسکے۔ اُنہیں سیاسی صحرانوردی میں کھوئی ہوئی جموں کشمیر کی مخصوص شناخت کی باز یابی کا خواب بھی تعبیر ڈھونڈ نی ہوگی۔ اس سلسلے میں اُنہیںمرکزی قیادت سے دوستانہ مراسم بڑھا کرصلح جویانہ ماحول میں رابطے کاپُل بننا ہو گا ۔ اُمید کی جاتی ہے کہ مرکز بھی سارا معاملہ افہام وتفہیم اور کشادہ ذہنی کے ساتھ فی الفورنپٹا لے گا ۔ الیکشن منشور کے مطابق اگر دوسویونٹ مفت بجلی تمام بجلی صارفین کو اور بارہ عدد مفت گیس سلنڈر خط ِافلاس سے نیچے گزر بسر کر نے والے غریبوں کو سالانہ دئے جاتے ہیں ‘تو یہ فلاحی ریاست کے نظریے کو عملی معنویت عطا کر نے والے اہم قدم تصور ہوں گے۔
بہر کیف آنے والے ماہ وسال ہی بتائیں گے کہ تواریخِ کشمیر کا نیا باب لکھتے ہوئے چیف منسٹرعمر عبداللہ اپنی حکومتی کارکردگی کی شریں یادیں درج کر پائیں گے یا خدانخواستہ نئی تلخ کا میوں کی نئی رُوداد سے ۔ فی الحال وہ سیاست دانی کے پہلے امتحان یعنی وزارت سازی کے پل ِصراط کو عزت کے ساتھ عبور کر گئے۔ چونکہ جموں اور کشمیر میں منقسم عوامی منڈیٹ سے سیاسی خلیج پیدا ہوئی تھی ‘ اس کو پاٹنے کے لئے عمر عبداللہ نے بخوشی نائب وزیراعلیٰ کی کرسی پر سریند ر کمار چودھری صاحب کو اور چھمب کے نو منتخبہ ممبر اسمبلی ستیش شرما کو کابینہ وزیر بنایا۔اس اَگنی پر یکشا میں عمر صاحب سرخ رُو ہوکر اپنا سیاسی بیڑا پار کر گئے ۔ آگے بھی اُن کی حُسن تدبیر میں مزید نکھار آنے کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔
ا بھی وزیراعلیٰ اپنے عوام پرور حکومتی منصوبوں اور انتظامی خاکوں کے بارے میں کوئی نقشِ راہ بنانے کی سوچ بچار میں مشغول ہی ہوں گے کہ افسوس صد افسوس پہلے شوپیان اور پھر گگن گیرکنگن اور اب ترال میں انسانیت کا سر شرم سے جھکانے والے بندوق کی گھن گرج سے جموںکشمیر میں یکایک اندہ ودلگیری کی گھٹا چھاگئی ہے۔ جنوبی کشمیر کے قصبہ شوپیان میں تین معصوم بچوں کے واحد سہارے بہاری مزدور کا نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں سفاکانہ قتل ہوا ‘ بعدازاں سیاحتی اور عسکری نقل وحرکت کے لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل گگن گیر سونہ مرگ میں زیر تعمیر ٹنل سے منسلک چھ غیرمقامی مزدروں سمیت ایک مقامی ڈاکٹر شہنواز ڈارکو نامعلوم قاتلوں نےگولیوں کی بوچھاڑ میں ابدی نیند سلا دیا ۔ان الم ناک واقعات سے یہ بات ذہن نشین ہوتی ہے کہ امن دشمن عناصراہل ِکشمیر کو امن چین سے جینے دینے کے بجائے اُنہیںاپنے خونی عزائم کی تکمیل کے لئے پھر سے قربان کر نا چاہتے ہیں ۔ گگن گیر المیے کی این آئی اے کی تحقیقات سے آج نہیں تو کل قاتلوں کا پتہ چلایا جائے گا اور وہ کیفر کردار تک بھی پہنچائے جائیں گے مگر عمر حکومت کو آنے والے ماہ وسال میں نامعلوم امن دشمنوںکی منشا کے برخلاف اپنی پشت پر موجودبے پناہ عوامی قوت کے سہارے جمہوری جد وجہد جاری وساری رکھنا ہوگی کیونکہ یہ واحد جمہوریت ہے جو جموںکشمیر کے درد کا درماں اور یہی نظم ِ مملکت بہشت ِارضی کو اپنےکھلے اور چھپے دشمنوں کا لقمۂ تر بننےسے بچاسکے گا۔
