از:ش ،م ،احمد
۵؍نومبر کو قانون ساز اسمبلی نے سیاسی اور نظریاتی تقسیم سے اوپر اُٹھ کر گزشتہ دس سال کی مدت میں دنیا ئے فانی سے انتقال کرچکی قومی سطح کی برگزیدہ سیاسی شخصیات اٹل بہاری واجپائی‘ پرناب مکھر جی ‘سوم ناتھ چٹر جی کے علاوہ نومنتخبہ اسمبلی ممبر دیوندر سنگھ رانا‘ سابق ریاستی وزیر مشتاق بخاری‘ میاں بشیراحمدلاروی ‘ چمن لال گپتا‘ پروفیسر بھیم سنگھ اور کشمیر کے متنازعہ سیاسی کردار اور تین بار ممبر اسمبلی رہ چکے سیدعلی گیلانی سمیت ۵۷؍ ایم ایل اے صاحبان کو بعد از مرگ خراج ِعقیدت پیش کیا ۔ مقننہ کی یہ صحت مند روایت رہی ہے کہ ہرسیشن کی ابتدا میں سیاسی نظریات سے بالاتر ہوکر اپنے تمام فوت شدہ ممبران کو رسماً تعزیتی ریفرنس کی شکل میں یاد کرکے اُنہیں گلہائے عقیدت پیش کرتی ہے۔ اس روایت کو برقرار رکھتےہوئے پچھلے کئی سال میں جن اسمبلی ممبران نے دُنیا کو الوداع کہا‘ اُنہیں ایوان میں اجتماعی طور شردھانجلی اَرپت کرنے یا اُن کے ایصالِ ثواب کے لئے دعائے مغفرت کے طور دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ قبل ازیں اسپیکر عبدالرحیم راتھر صاحب نے سابق صدرِہند پرناپ مکھر جی ‘ سابق وزیراعظم واجپائی جی اور لوک سبھا سابق اسپیکر سوم ناتھ چٹر جی کی زندگیوں‘ سیاسی صلاحیتوں اور فخریہ خدمات کا مختصر مگر جامع الفاظ میں احاطہ کیا ۔ حزب ِ اختلاف کے قائد سنیل شرمانے بھی وفات شدہ گان کو اپنی تقریر میں یاد کیا۔ موقع کی مناسبت سے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے علی الخصوص سورگباش اٹل بہاری واجپائی کی سیاسی زندگی کے ایسےخوشگوار پہلوؤں اور اُن ناقابل ِ فراموش کارناموں کو ایوان کے سامنے لایا جو اُنہیں ملک کے وزرائے اعظم کی صف میں ایک قابل صد ستائش مقام ومرتبہ عطاکرتے ہیں ۔ موصوف کے تعزیتی کلمات سے سامعین کے ذہن وقلب پر یہ تاثر مرتسم ہوا کہ واجپائی جی صلحِ کُل کے داعی اور شیدائی تھے ‘ اُن کی بالغ نظر سیاسی حکمت عملی آج بھی سلگتےمسائل سے نمٹنے میں ریلیونٹ ہے اور زمانے کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر بھی واجپائی ثانی کا متلاشی ہے ۔
اس میں دورائے نہیں کہ وزیراعلیٰ کے سیاسی کیر ئر کے بال وپر واجپائی جی کی کابینہ میں ہی نکلے۔اٹل جی کے دور ِ اقتدار میں این سی بھاجپا کی سربراہی والی این ڈی اے کی اکائی بنی رہی ۔ اس کی بدولت این سی واجپائی حکومت کا حصہ بنی اور عمر عبداللہ وزیرمملکت برائے خارجہ اُمور اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ باوجود یکہ اس دور میں گجرات کا بد نام زماں فساد وقوع پذیر ہوا‘ جس کے نتیجے میں این سی پر این ڈی اے سے ناطہ توڑنے کا داخلی دباؤ رہالیکن یہ بدستور ملی جلی سرکار کا حصہ بنی رہی ۔ا تنا ہی نہیں بلکہ نیشنل کانفرنس کی اکثریت والی اسمبلی کی اٹونامی قرارداد کو واجپائی سرکار میں رتی بھر پذیرائی بھی نہ ملی مگر پارٹی نے اٹل جی کا دامن ایک لمحہ کے لئے بھی چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ حالانکہ اس بابت نیشنل کا نفرنس کو کشمیر میں کافی تنقید ی تیر و نشتر برداشت کرناپڑے۔ آج کی تاریخ میں این سی حکومت کے لئے حالات دشوار اور ترجیحات یکسر مختلف ہیں مگر پارٹی بہ ہوش وگوش چاہتی ہے کہ اسے کسی بھی ایک حساس مد عے پر مر کز سے مقاومت ومزاحمت کی راہ پکڑنے کی نوبت نہ آئے کیونکہ ایسا کرنا پارٹی کے ساتھ ساتھ کشمیر کے لئے مہنگا سودا ثابت ہوسکتا ہے ۔
تعزیتی ریفرنس کے حوالے سے ایوان میں واجپائی کی شریں زبان سے ادا شدہ انمول لفظوں۔۔۔انسانیت ‘ جمہوریت اور کشمیریت ۔۔۔ کی میٹھی گونج پھر سےسنی گئی ۔ یہ سابق وزیراعظم کے محض رَٹے رٹائے الفاظ نہ تھے بلکہ یہ معانیوں کا گلدستہ ‘ مطالب کا آئینہ اور مفہومات کا ایک خزینہ اپنے اندر سموئے ہوئے تھے۔انہیں ہم بہ سہولت واجپائی کی کشمیر ڈاکٹرائن کہہ سکتے ہیں ۔اس کے اہداف ومنازل کی آج بھی اپنی اہمیت وافادیت قائم ہے ۔ بے جا نہ ہوگا اگر یہ کہیں کہ یہ ان لفظوںکا سیاسی چمتکار تھا کہ واجپائی کے بارےمیں کشمیر یوں کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوا ۔ اس سے بہت پہلے برکنا فاسو میں نرسمہا راؤ جی نے بھی اہل ِ کشمیر کو sky is the limit’’ آسمان حد ہے‘‘ کی لوری سنائی تھی مگر اُن کی بیل کچھ زیادہ منڈھے نہ چڑھی ۔ جب کہ واجپائی جی کےا ن پُر کشش الفاظ کی صداقت پر کشمیریوں نے دل وجان سے یقین کیا۔ وہ اُنہیں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنے لئےاُمید کی کرن پاتے رہے‘ انہیں یہ الفاظ ایک سہانے صبح ِ نوکا خو ش نماآغاز لگا ‘ خاص کر ناگفتہ بہ حالات کے ستائے ہوؤں نے ان لفظوں سے اپنے لئے امن اور انسانی دردمندی کا پیغام نچوڑلیا۔ کیا ان مقناطیسی لفظوں کے مرہم سے کشمیر کے ہرے زخم سہلانے میں واجپائی جی کامیاب رہے یا جس طرح بعد میںچار نکاتی فارمولے کا حشر ہوا ‘اُسی طرح داخلی اور خارجی حالات کے بادِ مخالف نے واجپائی جی کی اس جاذبِ نظر پالیسی کو کشمیر میں عملانے کی کسی کو مہلت ہی نہ دی ؟اس سوال کاجواب تاریخ کا بے رحم قلم ہی دے سکےگا ۔ البتہ یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ بلا شبہ بڑی سیاسی ہستیاں عوام کی بھلائی کے لئے کچھ اچھا کرنا تو دور کی بات اگر صرف اچھی زبان اور بھلی باتوں کا اعلان ہی کرتے ہیں تو’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق درد کے ماروں کادل مفت میں جیتا جاسکتا ہے ۔ دل جیتنے کا یہ فن اٹل جی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کشمیر کے موضوع پر جب بھی وہ کچھ بولتے تو اُن کے جملے اس بات کی ضرور چغلی کھاتے کہ وہ اس ارضی جنت میں بدامنی اور بے چارگی کی گھٹائیں دور کر نےکے لئے فکر مند بھی ہیں اور کوشاں بھی۔
بے شک بڑی ہستیاں بھی فانی ہوتی ہیںمگر اُن کی وسیع القلبی ‘ کشادہ ذہنی اور مثبت سوچ کا دائرہ جب اُن کے شخصی اوصاف اور ذاتی خوبیوں سے گھل مل جاتے ہیں تو وہ دنیا سے جانے کے بعد بھی عزت و تکریم کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں اور وہ اپنے پیچھے دَہائیوں اور صدیوں تک فکر و نظر کو متاثر کر نے والے لافانی اثرات چھوڑتے ہیں۔ اُن کے میٹھے رسیلے خیالات کی صدائے باز گشت مجالس اور محافل میں کسی نہ کسی پیرائے میںہمیشہ سنی جاتی ہے ۔ واجپائی جی اسی قبیل کے ایک صحیح الخیال سیاسی ہستی تھے ۔
واضح رہے کہ کشمیر کے سیاسی مخمصے کے حوالے سے اٹل جی کے محسوسات اور خیالات محض شریں بیانیوں‘ لامثال تقریری ہنر مندیوں اور دل کش باڈی لنگویج تک محدود نہ تھی بلکہ اُنہوں نے ہند پاک رشتوں کو ایک نئی طرح دینے کی نیت سے اپنےاعتدال پسندانہ سیاسی افکار اور عملی اقدامات کا ایک لمبا اِ تہاس بھی لکھ چھوڑا تاکہ کشمیریوں کا ہمہ گیربچاؤ ممکن ہو ۔ یہ اِ تہاس اگرآج بھی اُنہی کے جیسے مضبوط ارادوں ‘ صاف ذہن اور نیک نیتی سے از سر نو لکھا جاتا ہے توکوئی بھی پیچیدہ اور سنگلاخ سیاسی مسئلہ افہام وتفہیم کے ذریعے چٹکیوں میں سلجھایا جاسکتا ہے ۔
تاریخ کے صفحات کھنگالنے سے معلوم ہوتاہے کہ کشمیر اٹل بہاری واجپائی کے سیاسی سفر میں ہمیشہ شامل رہا۔ ۱۹۵۳ میں پہلی بار کشمیر میں قدم رکھنے سے لے کر اپنی وزرات ِعظمیٰ کےا خیر تک وہ یہاں کے سیاسی سیاہ وسپید سے وابستہ اور پیوستہ رہے ۔ سنہ۵۳ میں جب شیخ محمد عبداللہ صاحب کی سیاست وقیادت جموں کشمیر میں نصف النہار پر تھی ‘ واجپائی صاحب اپنے عنفوانِ شباب میں تھے۔ اُن تاریخی ایام میں جن سنگھ کشمیر میں داخلے کے لئے درکار سرکاری اجازت نامے کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔ از رُوئے قانون کشمیر میں غیرکشمیریوں کے داخلے کے لئے سرکاری اجازت نامے کی شرط عائد تھی ۔ اس تکلف کو علانیہ طور مسترد کرنے کا مشن لئے جن سنگھ کا ایک وفد واردِ کشمیر ہو ا۔ واجپائی جی اس وفد کا حصہ تھے۔ وفد سرکاری اجازت نامے کی مخالفت میں بلاا جازت یہاں وارہوا تو گرفتار ہوا۔وفد کی سربراہی جن سنگھ کے اہم نیتا ڈاکٹر شیاماپرساد مکھر جی کر رہے تھے۔ کشمیر پولیس نے قانون شکنی کے الزام میں بشمول مکھر جی کے واجپائی جی اور وفد کے دیگر ارکان کو حراست میں لیا۔ سُوئے اتفاق سےچشمہ شاہی سری نگر کے سرکاری مہمان خانے میں مکھر جی پرلوک سدھار گئے ۔ اُن کی اچانک موت کا معاملہ کشمیر کی سیاست میں ایک بے قابو سیاسی آندھی طوفان کا روپ دھارن کر گیا۔ حتٰی کہ اس طوفان میں گھری شیخ صاحب کی حکومت تہ َوبالا ہو کر رہ گئی۔ پھر آگے یہاں کیا کیا ہو ا‘وہ تواریخ کا ایک کرب ناک باب ہے جس کے بطن سے المیوں اور صدمات کی کاشت ابھی تک جاری ہے ۔
بہر کیف ۵۳ کے بعد واجپائی جی کی کشمیر کے ساتھ گہری دلچسپی کے سبب اُن کا یہاں آنا جانا برابر لگارہا۔ وہ جن سنگھ کےپُرجوش نیتا اور پرچارک تھے۔ یہ پارٹی ابھی ملکی سیاست میں کسی شمار وقطار میں نہ تھی مگر واجپائی جی اپنی پارٹی کو کشمیر تک توسیع دینے کی غرض سے پرانے شہر سری نگر میں مسلم پنڈت مخلوط آبادی والے گنجان علاقے چنکرال محلہ میں رہنے والے جن سنگھ کے ایک شریف النفس پنڈت نیتا ٹیکہ لال ٹپلو کے گھر آتے جاتے رہتے۔ راقم السطور کےایک دوست جو ٹیکہ لال ٹپلو کے قریبی پڑوسی تھے ‘ نے ایک سے زائد مرتبہ واجپائی جی کو اپنے شریفانہ وقار کے ساتھ ٹپلو کے گھر تنگ وتار گلیوں میں کئی بارپیدل آتے جاتے دیکھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ اٹل جی گلی سے گزرنے والے ہر شخص کے ساتھ سلام دعا کرتے ‘ مصافحے کے لئے خود آگے بڑھتے اور تپاک سے پیش آتے۔ ایسی دل نشین ادائیں اُن کی شخصی زندگی میں تاعمر رَچ بس کردم ِ واپسیں تک اُن کے ساتھ چپکی رہیں۔اس عالی ظرفی سے اُن کے لئے دلوں میں کہیں محبت کے پھول اورکہیں ہر دل عزیزی کی مہک ثبت ہوتی رہی۔سیاسی موسموں کی مسلسل گردش میں ایمرجنسی کے مابعد جنتا دل کی حکومت میں واجپائی جی کو وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا گیا تو اپنے سیاسی عہدے کے توسط سے اُنہیںسری نگر کے قلب میں ریاست کے پہلے پاسپورٹ آفس کے افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ اس سے اہل ِکشمیر کی راہ ورسم بیرونی دنیا سےبہت بڑھ گئی۔ اس کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن جینوا میں مرکز کی کانگریس حکومت نے جنیوا ڈپیوٹ کیا۔ انہوں نے نجی سیاسی وابستگی سے بالاتر عالمی فورم پر دلی کے موقف اور کاز کی بہ دلائل جاندار وکالت کر لی کہ اسلام آباد کشمیر پر دلی کے خلاف اپنی قراردادِمذمت واپس لینے پر مجبور ہوا ۔
موجودہ زمانے میںذاتی زندگی میں کوئی سیاسی لیڈر طبعاً کتنا ہی اچھا بھلا ہو‘ انصاف پسند ہو ‘ انسان دوست ہو مگر سیاسی زندگی کی اندھی بہری دنیا میں بڑے بڑےقائدین کو کئی بار آنکھ بند کر کے تلخ گھو نٹ بھی پینے پڑتے ہیں ‘ کئی چیزوں کی اَن دیکھی اور کئی باتوں کی اَن سنی کر نی پڑتی ہے ‘ کہیںمجبورانہ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں ‘ کہیں مغرورانہ معاہدوں کی حامی بھرنی پڑتی ہے ۔ سیاسی دنیا کی اس کڑوی حقیقت کے زاویہ ٔ نگاہ سے واجپائی جی کوئی آسمانی مخلوق نہ تھے بلکہ گوشت پوست والے انسان اور سیاست کار تھے ۔ نہ جانے اُنہیں دشت ِ سیاست کی آبلہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی کتنی چیزوں کو قومی مفاد میں برداشت کر نا پڑاہو گا۔ بایں ہمہ کشمیر کے بارے میں اُن کی صلح ِ کل اور بقائے باہم پر مرتکز شاندارپالیسی ‘ امن پسندانہ پیش قدمیاں اور جیو اور جینے دو کی کاوشیں مکمل طور کامیاب نہ بھی رہیں ہوں‘ اُن کا
بر صغیر میں نیک ہمسائیگی اور امن وترقی کا سورج پروان چڑھتے دیکھنے کا خواب تشنۂ تعبیر رہا ہو‘ اُن کے عالی شان معاشی منصوبے دھرے کے دھرے رہے ہوں ہو مگر پھر بھی تاریخ یہ انمٹ سچائی نہیں بھول سکتی کہ یہ اُن کا ہی کلیجہ اور اُن کے مدبرانہ مزاج کا حوصلہ مندانہ اظہار ہی تھا کہ بہ حیثیت وزیراعظم ِ ہند اُنہوں نے ہندپاک رقابت وعداوت کے سیاہ بادل جا بجاچھائے ہو نے کے باوصف پارلیمنٹ میں ببانگ ِ دہل کہا تھا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں ۔ یہ اعلان گویا کشمیر میں دہکتے جہنم زار کو ٹھنڈا کرنے اور اسے دوطر فہ رابطے کا پُل بنانے کی جانب پہلا کارگرقدم تھا۔ لاہور بس ا س کتاب کا دیباچہ اور اختتامیہ تھا۔ لاہوربس میں سوار کئی ایک نامور سیلبرٹیز کے ہمراہ جب آپ براستہ امرتسر پار پہنچ گئے تو اپنی اخلاص مندی کی گہری چھاپ چھوڑدی‘ وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کا اعتماد ومحبت ہی نہ جیتا بلکہ مینارِ پاکستان جاکر اس ملک کے عوام کا یہ خدشہ دور کر نےکی بالفعل مثبت کوشش کی کہ انڈیا کو پاکستان دل سے تسلیم نہیں ۔ افسوس صد افسوس کہ وہاں سے جنگ وجدل اور فتنہ وفساد کو ایک منافع بخش صنعت بنانے والے خود غرض عناصر نے اپنی حکومتی قیادت کو بالائے طاق رکھ کر لاہور کاجواب کرگل کی صورت میں دیا۔ یہ واجپائی جی کے ساتھ وشواس گھات ہی نہ تھا بلکہ یہ اسلام آباد کی سیاسی اور سفارتی خود کشی تھی جس کی بھاری قیمت اس ملک سے اپنی تباہی وبربادی کی صورت میں برابر ادا ہو رہی ہے ۔ واجپائی جی نے اپنے سنہری سیاسی اُصولوں کی پونجی کو مشعلِ فروزاں بناکر اندھیاروں کے باوجود لاہور کا بس سفر کرکے تاریخ کا سمت ِسفر بدلنے کی حامی بھر لی تھی مگر سیاہ دل عناصر نے بس کا فوراًسے پیش تر پنکچر کرڈالا ۔
بہر صورت آج کی تاریخ میں امن ‘ دوستی‘ مفاہمت اور یگانگت کی جوت کشمیر میں جگانے کے لئے ایک نئے پُر عزم اور پُر خلوص واجپائی کو زمانہ بہت ڈھونڈ رہا ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر جموں کشمیر کو انسانیت ‘جمہوریت اور کشمیریت کے سفر میں اپنی منزل ِ مراد تک رہبری کر نے کا اہل ہو ؎
اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہےجہاں تک پہنچے ( جگرمرادآبادی)
