تحریر:جہاں زیب بٹ
دس سالہ مشقت اور مشکلات کے بعد یوٹی کی پہلی اسمبلی بنی تو عوام نے اطمینان کی سانس لی کہ تانا شاہی کا زمانۂ ختم ہوگا اور اسکی جگہ بننے والی جمہوری حکومت انکے بہت سارے دکھوں کا مداوا
کر ے گی ۔اسمبلی کا پہلا اجلاس بلا یا گیا تو لوگ امید کررہے تھے کہ اہم مدعوں پر بحث ہو گی اور عوام دوست گورننس کا تحفہ ملنے کے اشارات ملیں گے ۔پانچ روز تک اسمبلی اجلاس منعقد رہاتو ایل جی کے ایڈرس میں سٹیٹ ہڈ کی بحالی کا وعدہ اور مستحق گھرانوں کو دو سو یونٹ بجلی کی فراہمی کا تذکرہ ہوا لیکن اجلاس کے دوران عوامی بہبود کا جامع منصوبہ ناپید تھا جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یوٹی درجہ مانع ہے اور عبداللہ حکومت کو پیر جمانے کے لیے وقت درکار ہے۔اس دوران عبداللہ حکومت کو جذباتی اہمیت کے حامل انتخابی وعدے کا بوجھ سر سے اتارنا تھا اور اس نے خصوصی پوزیشن کی مانگ کو لیکر اسمبلی میں قرار داد پاس کرکے حاتم کی قبر پر لات ماردی لیکن اس کے ساتھ ہی اسمبلی ہنگامہ آرایی کا اکھاڑہ بن گیی اؤر معزذ ممبران اسمبلی کے درمیان جھڑپوں کا افسوسناک سلسلہ شروع ہوگیا۔
اجلاس کے اخری روز باجپا ممبران کی ہلڑ باذی ایک بار پھرآخری حد پار کرگیی۔ وہ جوتوں سمیت میز اور کرسیوں پر چڑھے حالانکہ یہاں آیین کا پری ایمبل رکھا جا تا ہے ۔مجبورا انکو مارشلوں کے ذریعے کندھوں پراٹھاکر ایوان سے باہر نکالا گیا ۔عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی جاوید ملک نے باجپا ممبران کے غیر ذمہ درانہ اپروچ پر سیدھا نشانہ سادھتے ہو یے کہا کہ ان کو جموں کی رہنمایی کرنی آتی ہے اور نہ انھیں احساس ہے کہ یہاں پڑھے لکھے نوجوان ہیں جن کا سوچنا ہے مگر یہ حضرات ہنگامہ آرایی میں مصروف ہو کر ان کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں ۔
عوام یہ دیکھ کر مایوس ہو رہے ہیں کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن خصوصی پوزیشن پر مبنی قرارداد کی رو میں بہہ گیے ہیں اور سیاسی ڈرامہ بازی کے درمیان عوامی دلچسپی کے اہم مد عے پس منظر میں جارہے ہیں ۔نظر انداذ کیے جارہے ہیں ۔ بے روزگاری سب سے بڑا مدعا ہے جس کو ترجیحی طور پر حل کر نا ہے ۔بجلی کا بحران ہے عارضی ملازمین کا مسلہ ہے مگر سب کچھ لٹکا ہوا۔
یہ جاہلانہ پن ہے کہ ممبر ان اسمبلی ایوان کا تقدس پامال کریں اور اپنی بات شایستگی اوردلیل کی قوت سے منوانے کے بجایے میز پر چڑھیں آستینیں اوپر کریں اور اول جماعت کے بچوں کی طرح آپس میں لڑیں ۔ دوم یہ حضرات خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں کہ عوامی منڈیٹ ایک بہت بڑی امانت ہے ۔وہ الٹی سیدھی باتوں اور ہنگامہ باذی میں وقت ضایع کریں اور ٹھوس مدعوں سے انحراف کریں تو یہ خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟سوم اسمبلی اجلاس گاؤں کی دہ کمیٹی یا مسجد کمیٹی کا اکٹھا ہو نا ہے نہ سرکاری سکول کا پرایمری کلاس کہ اس پر کچھ خرچہ نہ آجایے ۔اس کے لیے دفتری اور سیکورٹی عملہ تعینات کر نا پڑتا ہے وافر انتظامات کرنے پڑتے ہیں جس پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے اور اس کا بوجھ خزانہ عامرہ کو اٹھا نا پڑتا ہے ۔اجلاس معزذ ممبران کے ہاتھو ں ضایع ہو جایے تو یہ ظلم ہے نا انصافی ہے۔اسی طرح معزذ ممبران جوابدہی کے خوف سے بے نیاز ہو کر آپسی جھڑپوں میں دن کاٹیں تو انکی تنخواہ حلال ہے تو کیسے؟ روایت یہ ہے کہ ہلڑ بازی پر ممبر اسمبلی کو ایوان کے باہر نکالا جاتا ہے یا اسے معطل کرکے اپنی کا نسچونسی کا ہیرو بنا یا جا تاہے۔کاش ایسا کو یی قانون ہو تا جس کے تحت ہلڑ باز کی تنخواہ کٹتی، اس کے مراعات میں تخفیف ہوتی تو انصاف کی لاج رہتی اور ہلڑ بازی کو بطور مشغلہ اپنا نے کی عادتیں چھو ٹ جاتیں ۔
