بی جے پی نے روایتی اپوزیشن کا کردار نبھاتے ہوئے اسمبلی کی کاروائی چلنے نہیں دی ۔ پارٹی کے ممبر دفعہ 370 کے حوالے سے اسمبلی میں لائے گئے ریزولیشن پر احتجاج کررہے تھے ۔ اس دوران منسوخ کئے گئے دفعہ کے حامیوں نے احتجاج کو روکنے کی کوشش کی ۔ اس وجہ سے ہال میں سخت شور برپا ہوا اور نوبت ہنگامہ آرائی تک پہنچ گئی ۔ بی جے پی کے ممبران اسمبلی کے وہیل میں آنے کی کوشش کررہے تھے ۔ جبکہ دوسرے ارکان انہیں ایسا کرنے سے روک رہے تھے ۔ اسپیکر نے اپنے طور بڑی کوشش کی کہ ممبران خاموش رہ کر کاروائی کو بہتر ڈھنگ سے چلنے دیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ پی سی کے سجاد لون اور ایپ کے شیخ خورشیدنے بیچ میں آکر بی جے پی ممبران کے ساتھ الجھنے کی کوشش کی ۔ اس پر اسپیکر کے حکم سے شیخ خورشید اور بی جے پی کے کئی ممبران کو اسمبلی ہال سے زبردستی باہر نکالا گیا ۔ اس طرح کی کاروائی کے بعد اسمبلی کی روزمرہ کی کاروائی آگے بڑھائی گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ بڑی اپوزیشن پارٹی کو باہر نکالنے کے بعد دوسرے موجود ممبران نے کاروائی بہتر ڈھنگ سے چلنے دی ۔ کئی ممبران نے لوگوں کے روزمرہ کے مسائل سامنے لائے اور ایل جے کے ایڈرس کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ۔ تاہم کئی حلقے اپوزیشن کے خلاف کاروائی کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ مجموعی طور اس تاثر کا اظہار کیا جارہاہے کہ اسمبلی کے پورے سیشن کو ہنگامہ آرائی کی نظر کرنا کوئی اچھی علامت نہیں ہے ۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کی حکمران طبقے کے ساتھ اپوزیشن دونوں اس ہنگامہ آرائی میں برابر کے شریک ہیں ۔ ان کا الزام ہے کہ کسی گروپ کی طرف سے کوشش نہیں کی گئی کہ ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر کاروائی کو اچھی طریقے سے انجام دیا جائے ۔ اس طرح سے نئی اسمبلی کا پہلا ہی سیشن شور شرابے کی نظر ہوگیا اور لوگوں کے مسائل پوری طرح سے نظر انداز ہوگئے ۔
دفعہ 370 کے حق میں یا اس کے خلاف اسمبلی میں کوئی بڑی سی بڑی کاروائی اس کی موجودہ پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی ہے ۔ اس بات سے تمام ممبران پوری طرح سے واقف ہیں ۔ بلکہ اس کا اظہار بھی کھل کر کیا گیا ۔ ادھر وزیرداخلہ کے علاوہ وزیر اعظم نے بھی واضح کیا ہے کہ اس طرح کی کاروائی سے کشمیر کے خصوصی حیثیت کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ وزیرداخلہ نے پیش گوئی کی ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی تین نسلوں کی کوششوں سے بھی ختم کی گئی خصوصی حیثیت کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ قانون جاننے والا ہر شخص باخبر ہے کہ کشمیر اسمبلی کے ریزولیشن سے کسی طرح کی پیش رفت ممکن نہیں ۔ یہ یک طرفہ کاروائی ہے جس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ اس سے پہلے اٹانومی ریزولیشن کے حوالے سے سب کو معلوم ہے کہ اس پر بہت محنت کرنے اور بعد میں اسمبلی کی طرف سے ریزولیشن پاس کے کرنے کے باوجود کوئی پتہ بھی نہیں ۔ بلکہ اس ریزولیشن کو ایک اعتدال پسند حکومت نے جس طرح سے ردی کی ٹوکری میں ڈالا اس سے پوری قوم کو مایوسی اور ریزولیشن کے حق میں رائے دینے والے اسمبلی کے ممبران کو سخت شرمندگی اٹھانا پڑی ۔ اس وجہ سے این سی کو آج تک خفت کا سامنا ہے ۔ اس طرح کے انجام سے باخبر ہونے کے با وجود اسمبلی ممبران ایک ایسے ایشو پر ہنگامہ آرائی کررہے ہیں جس کی قیمت ایک کاغذ کے ورق سے زیادہ نہیں ۔ این سی اور دوسرے کئی ممبران نے اس وعدے کو پورا کیا جو الیکشن کے دوران لوگوں سے کیا گیا تھا ۔ آج دفعہ370 کی اسمبلی میں بات کرنا اگر غیر قانونی ہے تو الیکشن کے دوران جن لوگوں نے اپنے انتخابی منشور میں اس پر بحث کی تھی اور اس کی بحالی کا عوام سے وعدہ کیا تھا الیکشن کمیشن کو اس غیر آئینی فعل کا نوٹس لے کر انہیں انتکابی عمل سے باہر کرنا تھا ۔ الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا تو اس بات کو کسی طور ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ این سی نے اسی طرح اپنے انتخابی منشور کے وعدوں پر عمل در آمد کیا جیسے بی جے پی اس حوالے سے اچھی شہرت رکھتی ہے ۔ بی جے پی اپنے انتخابی منشور کو ہی حکومت کا پروگرام بناتی ہے ۔ کئی جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت بنانے کے باوجود یہ اپنے انتخابی منشور کو ہر گز پس پشت نہیں ڈالتی ہے ۔ آج پہلی بار این سی کی کوشش ہے کہ اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے لوگوں سے کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں ۔ اس طرح کے عمل سے کوئی بڑا انقلاب آنے والا نہیں ہے ۔ ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہے نہ آئین کا الٹ پھیر ہونے کا خطرہ ہے ۔ این سی والے لوگوں کی نظروں میں اتنے ہی ملک کے وفادار ہیں جتنے دوسرے سیاسی لیڈر ہیں ۔ بلکہ یہ کبھی کبھار ان سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسمبلی میں موجود تمام ممبروں نے آئین کی وفاداری اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے کا حلف اٹھایا ہے ۔ اس طرح کے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے تمام ممبران کا اسمبلی میں احترام کیا جانا چاہئے اور اسمبلی میں ہر ایک کو بولنے کا حق ملنا چاہئے ۔ ایسا کیا جائے تو وقت غیر ضروری کاموں کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر خرچ ہوگا ۔ اسمبلی کئی سالوں بعد وجود میں آئی ہے ۔ اس کو صحیح ڈگر پر ڈالنا ضروری ہے ۔
