جہاں زیب بٹ
بھاجپا کے تیز طرار حملو ں کے آگے بے بس ہو کر کانگریس نے آخر کار اپنا موقف واضح کرتے ہویے دفعہ 370 کو مردہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ہوم منسٹر امت شاہ جھو ٹ پھیلا رہے ہیں کہ کانگریس این سی سے مل کر دفعہ 370 کی واپسی کرنا چاہتی ہے ۔پارٹی صدر ملک ارجن کھر گے نے صفایی دیتے ہو یے کہا ہے کہ کانگریس صرف جموں کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کے حق میں ہے اور اسی کا مطالبہ کرتی ہے ۔مقامی سطح پر پردیش کا نگر یس کے چیف طارق حمید قرہ نے بھی صفایی دی ہے کہ حال ہی میں یوٹی قانون ساز زیہ نے خصوصی درجہ کی مانگ کو لے کر جو قرارداد منظور کی ہے وہ دفعہ 370 کے ہم معنیٰ نہیں ہےبلکہ یہ جموں کشمیر کی کلچرل شناخت محفوظ رکھنے پر مبنی ہے۔
کانگر یس نے ملکی سیاست کی نزاکت کے مطابق دفعہ 370 پر اپنا موقف صاف کردیا تو اس پر ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ تلملا اٹھے اور انھوں نے طارق حمید قرہ پر غلط بیا نی کا الزام عاید کر تے ہو یے دعویٰ کیا کہ یو ٹی قانون سازیہ کی حالیہ قرار داد دفعہ 370 کی بحالی پر ہی مبنی ہے ۔تاہم مبصرین نے مذکورہ بیان کو آغا روح اللہ کا ذاتی بیان قرار دیتے ہو یے کہا ہے کہ این سی بطور جماعت آغا روح اللہ کے بیان سے لا تعلق ہے کیو نکہ وہ کانگریس کی مجبوری کو بخوبی سمجھتی ہے جو دو ریاستوں میں الیکشن امتحان سے دوچار ہے اور دفعہ 370 کے معاملے پر بھاجپا کے نشانے پر ہے ۔پرایم منسٹر مودی اور ہوم منسٹر امت شاہ نے مہاراشٹر کی چناوی مہم میں کانگریس پر تابڑ
تو ڑ حملے کیے کہ وہ جموں کشمیر میں این سی سے مل کر دفعہ 370کو واپس لانے کا ساز باز کررہی ہے جسے پاکستان کا ایجنڈا چلا نے کے مترادف قرار دیا گیا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا گیا کہ دفعہ 370 کو اتنی گہری قبر میں دفن کیا گیا ہے کہ راہو ل گاندھی کی چار پیڑ ھیا ں بھی اس کو بحال نہیں کرسکتی ہیں ۔کانگریس کی مشکل یہ ہے وہ بھاجپا کے مقابلے میں جوابی بیانیہ کھڑا کر نے سے قاصر ہے ۔مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں الیکشن مہم کی گرم ہوا کو محسوس کر تے ہو یے کانگریس نے دفعہ 370 کی بحالی کے کسی مطالبے سے اعلان برأت کیا ہے ۔
بادی النظر میں لگتا ہے کہ آغا روح اللہ کی طرف سے کانگریس پر نشانہ ساد ھنے سےا ین سی کانگریس اتحاد میں دراڑ پیدا ہو نے کا اندیشہ ہے۔لیکن یہ چایے کی پیالی میں طوفان ہے جس سے اتحار میں کسی بڑے بحران کا امکان نظر نہیں اتا ۔قانون ساز اسمبلی کی قرار داد مبہم ہے ،لچکدار ہے اور اس میں دفعہ 370سے بالکل تعرض نہیں کیا گیا ہے ۔خصوصی درجہ پر ڈایلاگ کا مطالبہ کسی دھماکہ خیز صورتحال کا پیش خیمہ نہیں ہے۔مذاکرات کا مطالبہ منظور کرنا یا نہ کرنا مرکز کے ہاتھ میں ہے اور جب مذاکرات کی گاڑی پکڑی جاتی ہے تو سفر دو تین دنوں مہینوں کا نہیں
ہو تا بلکہ بسا اوقات ایسا مطالبہ اور ایسی مشق فریقین کی سیاسی ضرورت کا شاخسانہ ہوا کرتی ہے۔ایک حلقے کی رایے ہے کہ اسمبلی کی قرارداد کا مہاراشٹر اور جھار کھنڈ الیکشن کے ٹھیک موقعہ پر پاس کرواکر این سی نے جہاں اپنے ووٹروں کو فی الحال خوش رکھنے کا سامان پیدا کیا ہے وہیں گہرایی سے دیکھیں تو اس نے شعوری یا غیر شعوری طور پر بھاجپا کو وقت ضرورت ایک اچھا ہتھیا ر ہاتھ میں تھما کر اس کی بالواسطہ مدد کی ہے۔این سی کو کانگریس کی نسبت بھاجپا سے اچھے سمبندھ قایم رکھنے سے غرض ہےجو درپیش حالات میں مجبوری ہے۔اگر تعلقات کی استواری میں کانگریس کے ساتھ ر شتہ کمزور پڑے یا ٹوٹ بھی جا یے تو این سی کو کویی بڑا جھٹکا لگنے کا اندیشہ نہیں۔کانگریس ملکی سیاست میں کامیابی کا ایک آدھ زینہ طے کر نے کے باوجود ابھی رینگنے کی ہی پوزیشن میں ہے ۔مقامی طور پر بھی اسمبلی الیکشن کے موقعہ پر جموں میں اس کا صفایا ہوگیا جبکہ وادی میں جو سیٹیں اس کو مل گییں وہ این سی کی مہربانی ہے۔یہ سیٹیں اس کو مفت میں این سی کی مدد سے مل گییں ورنہ وہ اپنے بل پر لڑتی تو اس کوحسرتناک شکست کھا نی پڑتی۔این سی حلقوں کو آج پچھتاوا ہو گا کہ انھو ں نے کا نگر یس کے ساتھ سیٹ شیرنگ ہی کیوں کردی ۔
اسمبلی کی پاس کردہ خصوصی درجہ کی مانگ پر مبنی قرارداد فی الحال سیاسی جماعتوں کی ضرورت کا سامان فراہم کر نے کا کام کررہی ہے۔نہ جا نے کب تک اس پر لایعنی بحث و مباحثہ ہو گا اور من پسند تشریح سے اس کا مفہوم سمجھانے سکھا نے کی نہ ختم ہو نے والے عمل میں کتنی انرجی ضایع ہوگی اور کتنا زمانہ اس کی نذر ہو گا ۔این سی خوش ہے اور دعویٰ کررہی ہے کہ پہلے ہی ماہ میں قرارداد کا وعدہ پورا کیا جبکہ ملکی سطح پر اس کو لیکر سیاست ہو رہی ہے۔ اصل سوال اس پر پیش رفت کا ہے جو ایک پیچیدہ گتھی ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس کو سلجھانے کا ضروری کردار تاریخ پیدا کرے گی یا نہیں۔
