• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
اتوار, جون ۸, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

نوجوانوں میں شدت پسندی کا بڑھتا رجحان

Online Editor by Online Editor
2024-12-03
in رائے
A A
نوجوانوں میں شدت پسندی کا بڑھتا رجحان
FacebookTwitterWhatsappEmail

از:ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

تاریخ شاہد ہے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب نوجوان اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو تعمیری اور مثبت طور پر استعمال کریں ، مزاج میں اعتدال اور توازن ہو ، فکر میں بالیدگی اور شعور و آگہی پائی جائے اور اچھے اور برے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہو۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوجوان اگر صحیح معنوں میں سیاسی ، سماجی اور مذہبی طور پر بیدار رہیں اور اپنی فکری و نظریاتی قوتوں کا درست استعمال کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو یقینا معاشرے میں امن و سکون اور ہم آہنگی کی خوشگوار فضا ہموار ہو جائے گی۔ ایسے ہی نوجوان کے اندر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے اور یہ سماج کے دیگر بچوں اور نوجوانوں کے لئے آئیڈیل ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس ، اگر نوجوانوں کی تربیت و اصلاح ، صالح اور متوازن نظریاتی و فکری خطوط پر نہ کی جائے تو ان کے جملہ اوصاف منفی اور تخریب کاری میں تبدیل ہو جاتے ہیں ، جن کو اپنی خوبیوں اور اچھائیوں سے قوم و ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں مثبت رول ادا کرنا تھا۔ وہ پھر اسی سماج کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں ۔ نظریاتی اور فکری طور پر بھی ایسے نوجوان اپنے اندر توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اوراپنے رویوں اور کردار نیز کارناموں میں تعصب و تنگ نظری اور جانبداری کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں ، یا یہ کہیں کہ ان کے اندر شدت و سختی کا رجحان غالب ہونے لگتا ہے۔
عہد حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے نوجوانوں میں شدت پسندی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان میں ، خواہ ان کا کوئی بھی مذہب و دھرم ہو ، مذہب و ملت اور رنگ و نسل کے نام پر تشدد کا فروغ پانا نہ ان کے لئے اور نہ اس سماج کےلئے ٹھیک ہے جہاں وہ رہ رہے ہیں۔ مذہب کوئی بھی ہو اس کی اپنی تعلیمات یہی ہوتی ہیں کہ معاشرہ پر امن رہے ، نفرت و عداوت معاشرے میں رائج نہ ہو ، تمام اقوام و ملل کے لوگ مل جل کر امن و آشتی سے رہیں ۔ اس لئے جن نوجوانوں میں تشدد و تنگ نظری کا رجحان بڑھ رہا ہے ان کو مذہب سے جوڑ کر قطعی نہیں دیکھنا چاہئے ، یہ الگ بات کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ مذہب کے نام پر ہی کیا جارہا ہے۔
موجودہ وقت میں نوجوانوں میں جس طرح سے تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے اس کا سبب یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں ان نوجوانوں پر کوئی ظلم ہوا ہے ، یا ان کی تاریخ و تہذیب اور ثقافت و تمدن سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ تاریخ اور حق کا ہر متلاشی بخوبی جانتا ہے کہ ہندوستان میں تکثیری سماج اور اس کے معاشرتی خدو خال ہر دور اور ہر زمانے میں پوری طرح سے محفوظ و مامون رہے ہیں۔ ملک میں اقتدار و تسلط خواہ کسی بھی کمیونٹی یا دھرم کے ماننے والوں کا رہا ہو لیکن اگر کوئی طبقہ یا جماعت سیاسی مفادات کی خاطر تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرے اور اس میں معاشرے کے نوجوانوں کو ایک خاص فرقہ و برادری کے خلاف ورغلانے کی سعی کرے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔
آج کل تشدد کی جو لہر ملک کے نوجوانوں میں دکھائی دے رہی ہے ، اسے وہ مذہب کے نام پر انجام دے رہے ہیں جب کہ تشدد کا کوئی بھی پہلو ہو ، اسے نہ مذہب کی خدمت گردانا جاسکتا ہے اور نہ اس مکروہ رویے کی اجازت کسی مذہب میں ملتی ہے۔ یاد رکھئے! نفرت و تعصب یا تشدد کسی بھی کمیونٹی میں پایا جائے اس کے نتائج معاشرے پر ہمیشہ متنفرانہ اور مایوس کن ہی مرتب ہوتے ہیں ۔ تصور کیجئے! جن نوجوانوں کو اپنے مثبت اور تعمیری کارناموں کے توسل سے نہ صرف اپنے والدین ، گھر ، خاندان اور ملک و قوم کا نام روشن کرنا تھا آخر ان کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ ان لوگوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں جن کے اپنے سیاسی مفادات ہوں ؟ سیاسی جماعتوں اور ایسی تنظیموں کے مقاصد کو نہایت سنجیدگی اور پوری حساسیت کے ساتھ ان نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا تبھی وہ اپنے مستقبل کی حفاظت کرسکیں گے۔
اسلام کی تعلیمات اور اس کا آئینی و دستوری نظام ایک ایسے سماج کی تشکیل کرتاہے جس میں تمام کمیونٹی اور رنگ و نسل کے لوگ اعتقاد و ضمیر کی آزادی اور فکر و عقیدہ کی حریت کے ساتھ رہیں۔ اسلام کسی بھی کمیونٹی کے افراد کے ساتھ تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ امن و سکون اور اطمینان و اخوت اسلام کی تعلیمات کا بنیادی حصہ ہیں ۔ یہ دیگر ادیان و مذاہب اور ان کی مقدس کتب و شخصیات کے احترام کا بھی قائل ہے اور اس کی تعلیمات اعتدال و توازن کی شانداعلامت ہیں۔ وہ ہر اس نظریہ ، فکر اور رویوں کی سختی سے مخالفت و ممانعت کرتاہے جو معاشرے میں بد امنی ، عدم توازن اور تشدد کے حامی ہیں ، یا ایسے کرداروں کی جو ان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کا سماج ان تعلیمات اور روایتوں کو اپنے لئے نمونہ عمل بنائے جن سے معاشرے میں امن و خوشحالی آئے۔
آج ملک کے نوجوان جس تیزی سے فکری ، عملی اور نظریاتی طورپر تشدد میں مبتلا نظر آرہے ہیں ان کا یہ کردار ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے اس لئے نوجوانوں کو تشدد کا شکار ہونے سے بچانا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جو نوجوان بے روزگار ہیں انہیں روزگار فراہم کیا جائے کیونکہ بے روزگاری بھی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آرہی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے نوجوان مایوسی کا شکار ہوکر غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کے سامنے مذہب کی غلط تعبیر و تشریح پیش کی جا رہی ہے اور انہیں مذہب کا وہ تصور بتایا جارہا ہے جو مخصوص فکر سے وابستہ افراد کا وضع کردہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو متشدد ہونے سے بچانے کے لئے ان کو تعلیم و تربیت سے وابستہ کیا جائے، ان کے سامنے مذہب کی حقیقی تصویر پیش کی جائے اور انہیں ایسے لٹریچر و ادب کا شائق بنایا جائے جو صداقت و معقولیت اور امانت و دیانت کا سچا علمبردار ہو۔ جب مکمل طور پر شفاف اور متوازن ماحول ملک کے نوجوانوں کو ملے گا اور اس طرح کے پاکیزہ ماحول میں فکری و نظریاتی پرورش ہوگی تو یقیناً نوجوانوں کی زندگی میں شدت اور تشدد کا شائبہ تک نہیں پایا جائے گا۔ ان کے نظام الاوقات مربوط ہو جائینگے۔ ان میں تعمیری ذہنیت پروان چڑھے گی اور پھر وہی امور سرزد ہوں گے جن کی توقع ہر مہذب معاشرے کو ہوتی ہے۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

دو اور ملازمین کی بر طرفی۔۔۔عمر عبداللہ تنقید کا نشانہ

Next Post

سری نگر کے داچھی گام جنگل میں انکاؤنٹر شروع، آپریشن جاری

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
عمر عبداللہ کی حلف برداری آج، جانیں کس کس کو ملے گی کابینہ میں جگہ

عمر عبداللہ کا "جموں جموں”

2024-12-18
عمر عبداللہ: رکن پارلیمنٹ سے دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے تک، سیاسی سفر پر ایک نظر

ایل جی کا حکمنامہ۔۔۔دو وائس چانسلر وں کی معیاد میں توسیع

2024-12-17
ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

2024-12-15
انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

2024-12-11
Next Post
راجوری میں وی ڈی سی ممبر کے گھر پر ملی ٹنٹوں کا حملہ، فوجی جوان اور وی ڈی سی ممبر کا رشتہ دار زخمی، آپریشن جاری

سری نگر کے داچھی گام جنگل میں انکاؤنٹر شروع، آپریشن جاری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan