سرینگر: اپنی پارٹی کے قائد سید محمد الطاف بخاری نے کہا ہےکہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی خاندانی جماعتیں عوام سے ووٹ مانگنے کا اخلاقی حق کھو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ان جماعتوں کے ممبران پارلیمنٹ کی کارکردگی، بالخصوص دفعہ 370 کے خاتمے کے حوالے سے، شرمناک حد تک خراب رہی ہے۔ انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ان پارٹیوں کو مسترد کردیں۔
یہ باتیں سید محمد الطاف بخاری نے آج جنوبی ضلع پلوامہ کے گوری پورہ اونتی پورہ میں اپنی پارٹی کے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
انہوں نے کہا، ’’گزشتہ پارلیمانی انتخابات یعنی 2019 میں، این سی اور پی ڈی پی جیسی جماعتوں نے عوام سے یہ وعدہ کرتے ہوئے ووٹ مانگے کہ وہ پارلیمنٹ میں دفعہ 370 اور 35 اے کا دفاع کریں گی۔ لوگوں نے ان جماعتوں کے وعدے پر بھروسہ کرتے ہوئے وادی کی تینوں نشستوں پر این سی کے اُمیدواروں کو ووٹ دیکر کامیاب بنایا، جبکہ پی ڈی پی کے پاس بھی راجیہ سبھا میں دو ممبران تھے۔ لیکن جب آزمائش کا وقت آیا تو ان ’عوامی نمائندوں‘ نے خاموش تماشائی بننے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ کم از کم انہیں ان آئینی دفعات کی منسوخی کے خلاف بطور احتجاج مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔ علاوہ اس کے اپنے پانچ سالہ دور میں، ان ارکان پارلیمنٹ نے نہ تو جموں و کشمیر کے عوام کے مفاد میں کبھی کوئی بات کی اور نہ ہی جموں کشمیر کے عوام کو معاشی فائدہ پہنچانے کے لیے کچھ کیا ہے۔ ان ناکامیوں کے بعد بھی یہ جماعتیں ایک بار پھر بے شرمی سے عوام کے پاس ووٹ مانگنے آتی ہیں۔ اب ان کے پاس عوام سے ووٹ مانگنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘
پی ڈی پی کی دھوکہ دہی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اپنی پارٹی کے صدر نے کہا، ’’2014 کے اسمبلی انتخابات میں، پی ڈی پی نے جموں و کشمیر میں بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کا وعدہ کرکے لوگوں سے ووٹ مانگے۔ لوگوں نے اس پارٹی کی قیادت پر اعتماد کیا اور اسے مینڈیٹ دیا۔ لیکن انتخاب جیتنے کے بعد، پی ڈی پی نے یہاں مخلوط حکومت بنانے کے لیے اسی بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ دو سال بعد، جب اس حکومت نے دو سو سے زیادہ لوگوں، جن میں زیادہ تر بچے تھے، اور درجنوں لڑکوں اور لڑکیوں کو نابینا کر دیا، تو پی ڈی پی کی رہنما نے ان ہلاکتوں کو یہ کہہ کر جواز بخشنے کی کوشش کی کہ ’کیا یہ بچے دودھ اور چاکلیٹ لانے کےلئے اپنے گھروں سے نکلے تھے؟‘ بے شرمی کے ساتھ کہے گئے یہ الفاظ ہمیشہ عوام کو یاد رہیں گے۔میں حیران ہوں کہ ان لیڈروں میں اتنی ہمت آتی کہا سے ہے کہ وہ یہ سب کچھ ہوجانے کے باجود پھر سے لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے پہنچتے ہیں۔‘‘
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ان جماعتوں کو مسترد کردیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ ان فریبی جماعتوں کو اپنا ووٹ دینے سے انکار کرکے انہیں ان کا صیح مقام دکھائیں۔‘‘
جلسے میں شرکت کے لیے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سید محمد الطاف بخاری نے کہا، ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آج مجھے سننے کے لیے وقت نکالا۔ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس ہماری سیاست کی اساس سچائی اور دیانتداری پر مبنی ہیں۔ ہمیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان سیاسی خاندانوں اور فریبی جماعتوں کا مقابلہ کر سکیں جو برسوں اور دہائیوں سے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ حق اور باطل کے درمیان معرکہ ہے، اور میں آپ سے عاجزی کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ جھوٹ اور فریب پر انحصار کرنے والے سیاست دانوں کو شکست دینے کے لیے ہمارے مشن میں تعاون کریں۔‘‘
مذہبی تنظیموں کو اپنے مذہبی اور سماجی فرائض کی ادائیگی کی اجازت دینے کے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے، سید محمد الطاف بخاری نے کہا، ’’اپنی پارٹی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ جموں و کشمیر میں مذہبی تنظیموں کو اپنی سماجی اور مذہبی ذمہ داریوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے پورا کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ یہ تنظیمیں معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، منشیات کی جاری وبا ہمارے معاشرے کے لیے ایک اہم چیلنج ہے، اور مذہبی تنظیموں کے پاس اس وبا سے نمٹنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت ہے۔‘‘
5 اگست 2019 کو جموں کشمیر کے عوام کےلئے ایک سیاہ دن قرار دیتے ہوئے اپنی پارٹی کے سربراہ نے کہا، ’’اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جموں کشمیر ملک کا ایک اٹوٹ انگ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس دن دفعہ 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا گیا، وہ جموں کشمیر کے عوام کے لئے ایک سیاہ دن تھا۔ بدقسمتی سے نئی دلی نے بار بار جموں کشمیر کے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔لیکن میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل بھی نئی دلی کے پاس ہی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’جموں کشمیر کے لوگ بہت سارے مسائل سے دوچار ہیں، جنہیں صرف اور صرف مرکزی سرکار کی معاونت سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ جب اپنی پارٹی کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہوگا تو یہ جماعت کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان مسائل کو حل کرائے گی۔ ہمیں جیلوں میں قید اپنے سینکڑوں نوجوانوں کو واپس ان کے گھروں میں لانا ہوگا تاکہ وہ اپنے کنبوں کے ساتھ معمول کی زندگی شروع کرسکیں۔ ہمارے ہزاروں نوجوانوں کو پولیس ویری فیکیشن حاصل کرنے میں محض اس وجہ سے دشواریاں پیش آتی ہیں کیونکہ ماضی میں ان کا کوئی رشتہ دار کسی قابل اعتراض نظریے سے وابستہ رہا ہے۔ہمیں یہ مسئلہ کرنا ہے۔ ہمیں یہاں اپنے نوجوانوں کے لئے روز گار کے مواقع پیدا کرنے ہونگے۔ یہ سارے کام مرکزی سرکار کی مدد سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔‘‘
اس موقع پر پارٹی کے جو سرکردہ لیڈران موجود تھے، ان میں نائب صدر عثمان مجید، صوبائی سیکرٹری نجیب نقوی ضلع صدر پلوامہ غلام محمد میر، چیف کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر طلعت مجید، حلقہ انچارج پلوامہ ڈاکٹر میر سمیع اللہ، صوبائی سیکرٹری کشمیر عمر جان، ڈی ڈی سی منظور احمد، بی ڈی سی چیئرمین پامپور الطاف احمد میر، سینئر لیڈر عبدالاحمد تانترے، ڈی ڈی سی محترمہ میما جی ، ڈی ڈی سی محترمہ منشا جی، یوتھ صدر پلوامہ سید تجلہ اندرابی، پارٹی کے سینئر لیڈر محمد ایوب بند، ثاقب مخدومی، عمر بیگ، یونس مسعودی، اسد اللہ ڈار، ارشد احمد ڈار اور دیگر لیڈران شامل تھے۔