کوٹرنکہ،18مئی:
عوامی رابطہ مہم کے دوارن خطہ پیرپنچال کے تفصیلی دورے کے 5ویں روز جموںوکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آج ضلع راجوری کے کوٹرنکہ میں ایک بھاری عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جموں وکشمیر نے اُس ملک کیساتھ نہیں الحاق نہیں کیا تھا جہاں یہ کہا جائے کہ ’اِس ملک میں رہنا تو جے شری رام کہنا ہے‘،یہاں کے عوام کو تو گاندھی کا ہندوستان دکھایا گیا تھا، ہمیں تو کہا گیا تھا کہ اس ملک میں ہر کسی کا درجہ برابر ہوگا اورہر مذہب کو برابر کے نظریہ سے دیکھا جائے گا لیکن آج ایسا دیکھنے کو نہیں مل رہاہے،میں مانتا ہوں ایسے کہنے والے لوگوں کی تعداد کم ہے، لیکن جب ہمارے حکمران ان کی مخالفت نہیں کرتے ،جب ہمارے حکمران ان کیخلاف آواز نہیں اُٹھاتے اور جب ہمارے حکمران اِن کیخلاف کارروائی نہیںکرتے تو ہمارے حوصلے کمزور ہوجاتے ہیں اور اُن لوگوں کے حوصلے اور زیادہ بلند ہوتے ہیں، اور پھر ہمیں ڈر لگتا ہے۔ہم ایک ایسے ملک میں رہنا چاہتے ہیں جس میں بھائی چارہ قائم و دائم رہے اور نیشنل کانفرنس کو وراثت میں یہ نعرہ ملا ہے کہ شیر کشمیر کا کیا ارشادہ ہند مسلم سکھ اتحاد ۔‘‘
اجتماع سے پارٹی جنرل سکریٹری حاجی علی محمدساگر، صوبائی صدر ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، سینئر لیڈران میاں الطاف احمد ، جاوید رانا ، اعجاز جان اور عبدالغنی ملک نے بھی خطاب کیا۔ عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ نیشنل کانفرنس سب سے زیادہ مضبوط تب رہی جب ہم سب ایک ساتھ اور ایک جُٹ تھے، جونہی ہم بکھر گئے ہم کمزور ہوگئے، جب ہم ایک دوسرے کا الگ الگ ترازو میں تولنے لگے تو ہم کمزور ہوگئے، جب ہم کہنے لگے کہ کون کشمیر کا ہے، کون جموں کا ہے، کون مسلمان ہے، کون سکھ ہے، کون ہندو ہے، کون گوجر ہے، کون پہاڑی ہے اور کون کشمیری ہے اور جب ہم نے فرق کرنا شروع کیا اُسی کے ساتھ ہم کمزور ہوتے گئے اور اسی کمزوری کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔
جموںوکشمیر کے عوام اس وقت جس پریشانی میں مبتلا ہیں اس پریشانی کی بنیاد وجہ یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس کمزور ہوگئی۔ این سی نائب صدر نے کہا کہ پچھلے دو 3سال میں بہت کچھ بدلا، جس کا ہم نے کبھی اندازہ بھی نہیں لگایا تھا ، جو کچھ جموں و کشمیر کیساتھ کیا گیا اُس کا شائد کسی کو بھی انداز نہیں تھا۔
دفعہ370اور 35اے کو ختم کرنا تو بھاجپا کے منشور میں تھا، لیکن اس کے علاوہ ریاست کے ٹکڑے کئے گئے اور دونوں حصوں کو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کیا گیا، اسمبلی اور قانون ساز کونسل چھین لیا گیا اور ہمیں جمہوری حقوق سے محروم کیا گیا۔اب سوال یہ اُٹھا تاہے کہ کیا ان سب فیصلوں کا جموںوکشمیر کے عوام کو فائدہ پہنچا کہ نہیں؟کیونکہ 5اگست 2019کو جواز بخشنے کیلئے بڑی بڑی باتیں ہوئیں، بڑے بڑے وعدے ہوئے اور بڑے بڑے اعلانات کئے گئے۔ یہاں تک کہ یہاں کے نوجوانوں سے کہا جارہا تھا کہ یہ ہل والے ترقی اور روزگار میں رکاوٹ ہیں اور مہنگائی اور دیگر پریشانی بھی انہی کی وجہ سے ہیں۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’جب کورونا میں کمی آئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں زمینی سطح پر دیکھوںکہ جو باتیں، وعدے اور اعلانات کئے گئے تھے اُن سے کچھ بدلائو آیا ہے کہ نہیں۔ ہمارا آئین، ہمارا جھنڈا، ہماری پہنچان ، ہماری شناخت چھینی گئی ،تو اس کا کہیں نہ ہیں تو فائدہ پہنچا ہوگا۔
شائد نئی سڑکیں بنیں ہونگی، شائد نئے ہسپتال بنے ہونگے، شائد بچوں کیلئے نئے سکولوں بنیں ہونگے، اور ان سکولوں میں کمپیوٹر لگے ہونگے، شائد ہمارے دیہات میں 24گھنٹے بجلی کی فراہمی ہوگی، شائدصاف پینے کے پانی کی سپلائی بلا رکاوٹ جاری ہوگی، شائد ہمارے نوجوانوںکو گھر بیٹھے بیٹھے روزگار کے آڈر مل رہے ہونگے، شائد ہمارے مال مویشی پالنے والوں کو ویٹرنری ڈاکٹر ساتھ چل رہیں ہوگے، لیکن مسلسل کئی ماہ تک ڈھونڈنے کے باوجود بھی مجھے ان میں سے کوئی چیز نہیں دیکھی۔
اگر کچھ دکھا ہے تو یہاں کے لوگوں کی پریشانی، یہاں کے لوگوں کی مایوسی اور یہاں لوگوں کی بے بسی۔‘‘اُن کا کہنا تھا کہ ’’لوگ جائے تو جائیں کہاں؟ بات کریں تو کس سے کریں؟شکایت کریں تو کرے کس سے؟جمہوریت کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے ہر ایک ایم ایل اے کو ہر5چھ سال بعد لوگوں کے پاس جاکر اپنی سرٹیفکیٹ پر مہر لگاوانی پڑتی ہے، اور ایم ایل اے کو بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر میں لوگوں کے درمیان نہیں رہا تو اگلی بار مجھے لوگ ووٹ نہیں ملیں گے،لیکن افسروں کویہ مجبوری نہیں ہوتی ہے، افسر کو خبر ہوتی ہے کہ 5سال بعد میری ترقی ہونی ہی ہونی ہے، ہر سال کے بعد میری تنخواہ بڑھنی ہی بڑھنی ہے، آج کوٹرنکہ میں ہوں، کل راجوری میں ہونگا اور پرسوں کالاکوٹ میں اور اگر مجھے سزا بھی ملے گی تو ریاست سے باہر بھیج دیں گے اور اسے لوگوں کے ساتھ رابطہ اور تال میل رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اور اس وقت جموںوکشمیر کے لوگ اسی افسرشاہی کی چکی میں پس رہیں اور جہاں عام لوگوں کی کہیں پر بھی شنوائی نہیں‘‘۔
حکمرانوںکو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ میں نے یہ پہلی بار ایسی حکومت دیکھی ہے جن کو تنقید سے اتنا ڈر لگا رہتا ہے، جہاں پر بھی ان کیخلاف کوئی بات ہوتی ہے تو فوراً انتظامیہ کی طر ف سے وہاں دبائو آتا ہے۔ اگر ہم لوگوں کے مشکلات اور مسائل کا ذکر نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ یہاں اعلان بہت بڑے ہوتے ہیں، لیکن جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
حکمرانوں نے سکیم کے تحت لوگوں کو گیس کنکشن مفت دیئے لیکن یہ کہنا بھول گئے کہ سلینڈر میں گیس آپ کو اپنے پیسوں سے بھرنی ہے اور یہ بھی کہنا بھول گئے کہ ہم ہر مہینے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے اور یہ بھی نہیں کہا کہ گیس کی قیمت 400روپے ہے اور ہم اس پر 700کا ٹیکس لگائیںگے اور جب غریب لوگوں نے گیس کی قیمتیں دیکھیں تو سلینڈروں میں گیس بھرنے کے بجائے انہیں کچن میں سجاوٹ کے طور استعمال کرنا شروع کردیا۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے امیر لوگوں کو زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن غریب پر بہت زیادہ منفی اثر پڑتا ہے۔ میں نے پہلی حکومتی ایسی دیکھی ہے جسے غریب لوگوں کو نچوڑنے کا اتنا شوق ہے۔ اسی لئے تو جہاں پوری دنیا میں گیس کی قیمتیں کم ہورہی ہیں صرف ہمارے ملک میں گیس مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ اس موقعے پر عمر عبداللہ کے ڈپٹی پولیٹکل سکریٹری مدثر شاہ میری کے علاوہ مقامی لیڈران مرزا عبدالرشید، نسیم لیاقت، شفقت میر، چودھری شفیع، شفقت میر، مٹی رحمن، گورسی صاحب بھی موجو دتھے۔ اس سے قبل عمر عبداللہ کا کوٹرنکہ پہنچنے پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔