ممکنہ برف باری اور انتظامی امور
محکمہ موسمیات نے رواں ہفتے کے دوران بارشوں اور برف باری کا امکان ظاہر کیا ہے ۔ محکمے کی طرف سے کی گئی پیش گوئی کے مطابق بالائی علاقوں میں برف جبکہ نچلے علاقوں میں بارشوں کے ساتھ ہلکی برف باری کا امکان ہے ۔ اس حوالے سے مختلف حلقوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ آنے والے حالات کے حساب سے اپنی سرگرمیوں کا شیڈول بنائیں ۔ ادھر پچھلے کئی روز سے وادی میں شدید سردی پائی جاتی ہے ۔ رات کا درجہ حرارت منفی 3 ڈگری سے نیچے آگیا ہے ۔ بعض سیاحتی مقامات پر درجہ حرارت مزید نیچے آگیا ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم خشک رہنے اور برف یا بارش نہ آنے کی وجہ سے اس طرح کی صورتحال پائی جاتی ہے ۔ بیشتر لوگ بخار ، زکام اور ایسی ہی دوسری موسمی بیماریوں کا شکار نظر آتے ہیں ۔ اب برف باری یا بارشیں ہونے سے اندازہ ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ انتظامیہ نے پیش گوئی کا اندازہ لگاتے ہوئے برف یا بارش ہونے کی صورت میں صورتحال سے نپٹنے کے لئے خود کو تیار بتایا ہے ۔ مختلف علاقوں کے انتظامی ذمہ داروں کے علاوہ کئی محکموں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے ۔ عین موقع پرواقعی ایسا ہوگا اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ تاہم انتظامیہ کی طرف سے جس طرح کی یقین دہانی کی جارہی ہے امید ہے کہ عملی طور بھی ایسا ہی کیا جائے گا ۔
دنیا کے مختلف خطوں میں موسم سرما کے دوران برف گرتی اور درجہ حرارت میں شدید کمی آجاتی ہے ۔ بلکہ کئی علاقوں میں کشمیر وادی سے زیادہ برف باری ہوتی اور کڑاکے کی ٹھنڈ پڑتی ہے ۔ اس کے باوجود وہاں زندگی کی معمولات اثر انداز نہیں ہوتی ہے ۔ کشمیر میں موسم سرما کے آتے ہی لوگ کانگڑیوں کا سہارا لیتے ہیں اور سارا کام کاج ٹھپ ہونے لگتا ہے ۔ پھر جب ایک دو انچ برف آجائے تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لوگ گھروں کے اندر بیٹھ جاتے ہیں ۔ سرکاری دفتروں میں کام کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ بلکہ بہت سے لوگ ان ایام کے دوران دفتر جانا غیر ضروری خیال کرتے ہیں ۔ اسکولوں کی تو سرکاری حکم نامے کے مطابق چھٹی کی جاتی ہے ۔ اس کی دیکھا دیکھی میں بہت سے ملازمین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے دفتروں میں بھی چھٹی کا اعلان کیا جائے ۔ سرکاری سطح پر ایسا نہ بھی کیا جائے غیرسرکاری طور بیشتر دفاتر بند ہی پڑے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں علاج معالجے کا نظام بھی درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے ۔ اس میں ہمارا تساہل پسند ہونا بھی ذمہ دار ہے ۔ یہاں ایسا ورک کلچر فروغ پاچکا ہے کہ کسی بھی اہلکار کا ہاتھ ہلانا اور سائل کے سوال کا جواب دینا اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ۔ کوئی چاہئے تو سائل کو سپارٹ انداز میں کام کرنے سے انکار کرسکتا ہے ۔ اس کے لئے کسی قانونی یا اخلاقی جواز کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ایسے سرکاری اہلکار کی کہیں پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ عوام کی خدمت کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ اس طرح کی ذہنیت اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے آفیسروں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس درجے کے آفیسر گورنر اور مرکزی سرکار کے لاڈلے ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کا کام کرنا ضروری نہیں ہے ۔ پھر نچلے درجے کے ملازم بھی اسی طرح کی عادتیں اپنے اندر ڈالتے ہیں ۔ یہاں تک کہ سرکاری دفتروں کے اندر کام کرنا معیوب فعل بن گیا ہے ۔ یہ تو عام دنوں کی بات ہوئی ۔ موافق حالات میں بھی سرکاری اہلکار کام کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ پھر شدید سردی کے اندر گھر سے نکلنا اور دفتر پہنچنا کار دارد والا معاملہ بن گیا ہے ۔ بارشوں اور برف باری کے دوران کام کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے موقعوں پر سب سے پہلے سرینگر جموں شاہ راہ بند ہوجاتی ہے ۔ یہ پچھلے ستھر اسی سالوں کا معاملہ ہے کہ حکومت اس مسئلے کو حل نہیں کرپارہی ہے ۔ موسم میں معمولی تبدیلی سے یہ سڑک بند ہوجاتی ہے ۔ بلکہ اندرونی سڑکیں بھی پانی سے بھر جاتی ہیں اور چلنے پھرنے کے لائق نہیں رہتی ۔ لوگ گھروں کے اندر محصور ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ موجودہ مرحلے پر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آنے والے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاریاں کی گئی ہیں ۔ امید ہے کہ سرینگر جموں شاہ راہ بند نہیں ہوگی اور اندرونی گلی کوچوں کو بھی جام نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ دفتروں کو تالا بندی سے بچایا جائے گا اور لوگوں کو تمام سہولیات بہم پہنچائی جائیں گی ۔ اس کے علاوہ بجلی کٹوتی پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس مسئلے نے پہلے ہی لوگوں کا پریشان کر رکھا ہے ۔ بجلی کی وقت بے وقت کی کٹوتی سے صارفین سخت مایوس ہورہے ہیں ۔ ایسی بنیادی ضروریات بہم نہ ہوں تو دن گزارنا اور راتیں کاٹنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ پتہ نہیں کہ ایسے معاملات دن بہ دن سدھرنے کے بجائے زیادہ ہی بگڑ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود امید ہے کہ رواں موسم کے دوران لوگوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے گا ۔
