یہ جان کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ سرینگر کے آس پاس کالنیوں میں آباد شہری بھی بنیادی مسائل سے دوچار ہیں ۔ پوش کالنیاں کہلائی جانے والی یہ آبادیاں دور دراز دیہاتوں کی طرح بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہی ہیں ۔ جو لوگ ان کالنیوں کو دور سے دیکھتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں آکر آباد ہوجائیں ۔ لیکن اندر آکر معلوم ہوتا ہے کہ ان کالنیوں میں بسنا آسان اور زیادہ آرام دہ نہیں ہے ۔ یہاں رہنے والے لوگ اپنے مزاج اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب کے حوالے سے بڑے پرکشش ہیں ۔ لیکن روزمرہ کے مسائل کے حوالے سے اسی طرح مشکلات کا شکار ہیں جیسے دوسرے علاقوں کے لوگ ۔ اس وجہ سے یہ لوگ بڑے مایوس نظر آتے ہیں ۔ ایسی بیشتر بستیوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولیات نہیں پائی جاتی ہیں ۔ پینے کے پانی کا صحیح انتظام نہیں ہے ۔انتظامیہ کا خیال ہے کہ یہاں کے شہری بڑے بڑے ہسپتالوں اور نجی کلینکوں میں جاکر علاج کراسکتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں صحت شعبے کی ترقی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ اسی طرح بجلی کی آنکھ مچولی کے مسائل یہاں بھی نظر آتے ہیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ جو ایسی کالنیوں میں پایا جاتا ہے وہ ڈرینیج کا مسئلہ ہے ۔ یہ مسئلہ پورے شہر میں پایا جاتا ہے ۔ بلکہ اس وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان کالنیوں میں اس حوالے سے زیادہ ہی پریشانی پائی جاتی ہے ۔ اسی طرح گلی کوچوں کی مرمت کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے ۔ قدم قدم پر سڑکیں ٹوٹ جانے کی وجہ سے کھڈ بن گئے ہیں ۔ ان کھڈوں میں پانی جمع رہتا ہے ۔ کوڑا کرکٹ ہٹانے کا مناسب انتظام نہیں ہے ۔ جہاں خالی جگہ ہے وہاں کوڑ اکرکٹ جمع ہے ۔ پارکیں اب لوگوں کی تفریح کے بجائے آوارہ کتوں کی آماجگاہیں بنی ہیں ۔ یہاں سے گزرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ یہ کچھ مخصوص کالنیوں کے مسائل نہیں ۔ بلکہ ہر جگہ ایسے مسائل پائے جاتے ہیں ۔
سرکار پچھلے دو چار سالوں سے اپنی بیشتر سرمایہ کاری دیہی ترقی کے شعبے میں کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی کام بھی ہورہے ہیں ۔ خاص کر پہاڑی علاقوں میں سڑکیں تعمیر کرنے کا کام پورے شد و مد سے جاری ہے ۔ البتہ لوگوں کے اصل مسائل حل کرنے کے لئے دیہی ترقی کا محکمہ کافی فنڈس خرچ کررہاہے ۔ یہ شعبہ سرینگر خاص کر جدید کالنیوں سے مبرا ہے اور ایسے علاقے اس کے دائرہ عمل میں نہیں آتے ہیں ۔ کچھ دوسرے حکومتی شعبے ضرور ہیں جو ایسے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔ لیکن ان کے پاس یا تو فنڈس نہیں یا ان کالنیوں کے ساتھ ان کی دلچسپی نہیں ہے ۔ میونسپل حکام کی ساری توجہ لالچوک اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک محدود ہے ۔ اگرچہ یہاں بھی زیادہ تعمیر وترقی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ تاہم فٹ پاتھ سجانے اور کچھ دوسرے تعمیری کام ہوتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں جو کام انجام دیا جاتا ہے اس پر اہلکاروں کی تشہیر ہوتی اور انہیں شاباشی ملتی ہے ۔ اس کے برعکس کالنیوں میں کوئی کام کیا جائے تو بڑی خاموشی سے انجام پاتا ہے ۔ یہاں کے لوگ تالیاں بجانے اور ڈھول پیٹنے کے عادی نہیں ۔ میونسپلٹی کے علاوہ شہری ترقی کے جو دوسرے ادارے ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتے ہیں ۔ وہ کہاں کام کرتے ہیں اس بارے میں کچھ اتہ پتہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کالنیوں کے بنیادی مسائل جوں کے توں پڑے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان بستیوں کو مکمل طور نظر انداز کیا گیا ہے ۔ بعض جگہوں پر سولر لائٹس لگائی گئی ہیں ۔ سڑکیں بھی کسی حد تک اپ گریڈ کی گئیں ۔ تاہم بہت سے مسائل ایسے ہیںجن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ دور دراز کے علاقوں میں کوچے پختہ بنائے جارہے ہیں ۔ سڑکوں کا جال بچھایا جارہاہے ۔ ندی نالوں پر دو طرفہ بنڈ بنائے جارہے ہیں ۔ یہاں کام کرنے والے ٹھیکہ داروں نے بے حساب پیسہ کمایا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں وافر کام کرایا جارہاہے ۔ بہت سے مزدور اطمینان سے رہ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری کام سے جڑجانے کے بعد انہیں اچھی خاصی مزدوری مل رہی ہے ۔ لوگوں کو ان کی توقع سے زیادہ سہولیات مل رہی ہیں ۔ اس کے بجائے شہروں اور قصبوں خاص طور سے کالنیوں میں رہنے والوں کو شکایت ہے کہ ان کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ ان بستیوں کو ترقی دینے اور جدید سہولیات فراہم کرنے کے لئے سرکار دیہی علاقوں کی نسبت بہت کم منصوبے بنارہی ہے ۔ ایسے علاقوں میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے ۔ جل شکتی ، بجلی اور اسکولی شعبے جس طرح سے دوردراز کے علاقوں میں متحرک نظر آتے ہیں پوش کالنیوں میں ایسی سرگرمیاں کہیں نظر نہیں آتی ہیں ۔ اس وجہ سے یہ کالنیاں فرسودہ اور اجڑی ہوئی بستیاں نظر آتی ہیں ۔ شاندار عمارات کے آس پاس جس طرح کی سہولیات اور آرائش ہونی چاہئے اس کا بہت حد تک فقدان پایا جاتا ہے ۔
