پولیس اور ٹرانسپورٹ محکمے کی طرف سے رواں ہفتے کو روڈ سیفٹی ہفتے کے طور منایا جارہا ہے ۔ بلکہ انتظامیہ کا بڑا حصہ ان تقریبات میں مشغول ہیں جن کا انعقاد اس حوالے سے کیا جارہاہے ۔ جگہ جگہ گاڑیوں کو روک کر گاڑی چلانے والوں کو ٹریفک قوانین سے متعارف کیا جارہاہے ۔ خاص طور سے دو پہیوں والی گاڑیوں کے مالکوں سے ہیلمٹ استعمال کرنے اور اس کی اہمیت سے باخبر کیا جارہاہے ۔ اس کے باوجود ٹریفک قوانین پر عمل نہیں ہورہاہے ۔ خاص طور سے موٹر سائیکل چلانے والے اپنی جانوں پر کھیل کر آگے بڑھتے ہیں ۔ بلکہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران ایسے حادثات پیش آئے جن میں سڑک کنارے موجود افراد مارے گئے ۔ اس وجہ سے اب شہریوں کو اپنی جان کہیں محفوظ نظر نہیں آتی اور جان کی حفاظت کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ اس وجہ سے روڈ سیفٹی ہفتہ منانا بے معنی ہوکر رہ گیا ہے ۔ سرکاری اہلکار اپنے طور کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو سڑکوں کے صحیح استعمال اور ٹریفک قوانین کا احترام کرنے پر راغب کیا جائے ۔ لیکن سننے والے عمل بہت کم کرتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ٹریفک حادثات پیش آتے اور لوگ مارے جاتے ہیں ۔ بلکہ ایسے حادثات میں زیادہ تر وہ نوجوان مارے جاتے ہیں جو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے بے خوف ہوکر موٹر سائیکل چلاتے ہیں ۔ اس طرح سے والدین کو اپنے لاڈلے بیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ ادھر کچھ ایسے حادثات بھی پیش آئے جب دوشیزائیں گاڑیاں چلاتی تھیں ۔ لڑکیوں کے ان حادثات میں موت یا زخمی ہونے پر سخت افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔
گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایسی گاڑیاں عام ہوگئی ہیں جن کے کل پرزے ٹھیک نہیں ہوتے ۔ ایسی گاڑیوں کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ گاڑیوں کے ٹائر اوربریک اپنی اصل ہیئت میں نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں صحیح ٹریک پر رکھنا ناممکن ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسری کئی خرابیوں کی وجہ سے گاڑیاں کنٹرول میں نہیں رہتی ہیں ۔ اس دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اب بھی بہت سے ڈرائیور نشے کی حالت میں گاڑیاں چلاتے ہیں ۔ سرینگر جموں شاہراہ پر جو حادثے پیش آتے ہیں ان کے لئے دو بنیادی وجہ بتائے جاتے ہیں ۔ ایک نشہ آور اشیا کا استعمال دوسرا غنودگی کی حالت میں گاڑیوں کا چلانا ۔ اکثر ڈرائیور رات کو گاڑی چلاتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی نیند پوری نہیں ہوتی ۔ گاڑی چلاتے ہوئے ان کے اعصاب پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے ۔ ایسی حالت میں گاڑی چلانے کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ اب تک زندگی کی اہمیت اور اس کی حفاظت کرنے سے پوری طرح سے واقف نہیں ہیں ۔ زندگی کے ساتھ اس طرح سے کھیلنا اور کھلواڑ کرنا اس حوالے سے لاعلمی کا نتیجہ ہے ۔ زندگی ایک بار چلی جائے تو لوٹ کر نہیں آتی ۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ بہت سے لوگ موت کو تقدیر کے ساتھ جوڑتے اور اس کی حفاظت کو مذہب سے بغاوت تصور کرتے ہیں ۔ جو کہ جاہلانہ تصور ہے ۔ بلکہ جہالت کے زمانے میں بھی لوگ زندگی کو کسی طور دائو پر لگانے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ پرانے زمانے کے لوگ جنگ کے دوران بھی اپنی جان بچانے کے لئے ڈھال کا استعمال کرتے تھے ۔ کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ڈھال کا استعمال غیر ضروری ہے ۔ موت کو جب آنا ہو تو ڈھال فائدہ نہیں پہنچاسکتی ۔ اس لئے ڈھال کا استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔ بلکہ ڈھال کا استعمال فن سپاہ گری کا ایک حصہ تھا ۔ لیکن آج کے زمانے میں لوگ حفاظتی اقدامات سے لاپرواہی برتتے ہیں ۔ نئی طرز کی گاڑیوں کے اندر حفاظتی سامان نصب کیا ہوا ہے ۔ حادثات کی صورت میں بچائو کے حالات کام کرتے ہیں اور گاڑی میں موجود لوگوں کی جان بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے ہیلمٹ کے معاملے میں نوجوان سخت لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اس کے استعمال نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ تو ادا کرتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے جان تو نہیں بچائی جاسکتی ہے ۔ لاپرواہی کا یہ حال ہے کہ جرمانہ ادا کرنا ٹریفک قوانین پر عمل کرنے سے آسان سمجھا جاتا ہے ۔ اب ٹریفک سیفٹی ویک کے دوران لوگوں کو ٹریفک قوانین کی جانکاری دی جاتی ہے ۔ اس عمل میں شامل اہلکار لوگوں خاص کر ڈرائیوروں سے بڑی شفقت سے پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سمجھا بجھا کر لوگوں کو ٹریفک رولز سے باخبر کیا جاتا ہے ۔ بلکہ انہیں سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی اپنی حفاظت کے لئے ضروری ہے ۔ ایسا کرتے وقت ڈرائیوروں میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں اور میٹھے بول بولے جاتے ہیں ۔ اس کے ابوجود زمینی سطح پر کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔ ٹریفک قوانین پر عمل کیا جاتا ہے نہ ٹریفک حادثات میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ معلوم نہیں یہ سلسل کب تک جاری رہے گا ۔ کب تک لوگ موت سے محبت اور زندگی سے نفرت کرتے رہیں گے ۔ یہ بڑا ہی المیہ ہے ۔ ٹریفک قوانین کی جانکاری اپنی جگہ بڑی اہم ہے ۔ تاہم اصل مسئلہ ان کے اطلاق کا ہے ۔ یہی وقت کی ضرورت ہے ۔
