ایل جی کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کو تنگ کرنے کے بجائے لینڈ مافیا سے حساب لیا جائے گا ۔ اپنے تازہ بیان میں انہوں نے واضح کیا کہ عام شہریوں اور غریب عوام کو چھیڑا نہیں جائے گا ۔ بلکہ ان دلالوں سے حساب لیا جائے گا جنہوں نے سرکاری اراضی ہڑپ کرکے اس پر شاندار کوٹھیاں ، ہوٹل اور شاپنگ مال تعمیر کئے ۔ ایک جی کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب سرکاری اہلکاروں کو کئی جگہوں پر خالصہ سرکار اور کاہچرائی واگزار کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔ اس حوالے سے الزام لگایا جارہاہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں سے تعرض کرکے عام شہریوں کو زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہاہے ۔ پٹن ، کولگام ، پلوامہ اور کئی علاقوں سے معلوم ہوا کہ محکمہ مال کے پٹواری پولیس اور دوسرے اہلکاروں سے مدد لے کر سرکاری اراضی کی واگزاری کے دوران ایسے غریب شہریوں کو بے دخل کررہے ہیں جن کے پاس کوئی دوسری جائے پناہ نہیں ہے ۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے علاوہ کئی مقامات پر سیاسی اور سماجی تنظیموں نے اس کاروائی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ اس کے باوجود سرکار کی طرف سے کی جارہی کاروائی جاری ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ انتظامیہ کے منشا کے برعکس عام شہریوں کو ستایا جاتا ہے جب کہ امیر لوگوں کو صاف راحت دی جارہی ہے ۔
سرکاری زمین پر لوگوں نے جو قبضہ جمایا ہے اس کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس کے ساتھ جڑے مسائل کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ بہت سے ایسے لوگوں نے سرکاری زمین پر اس وجہ سے رہائشی تعمیرات کھڑا کی ہیں کہ ان کے پاس ملکیتی زمین موجود نہیں ۔ ان میں بیشتر ایسے کنبے ہیں جنہوں اپنا داشت نہ داشت سب کچھ خرچ کرکے اپنے لئے مکانات تعمیر کئے ۔ ایسی تعمیرات کھڑا کرتے وقت پٹواری موجود تھے نہ گرداوار ۔ کسی بھی سرکار اہلکار نے ان تجاوزات پر کوئی اعتراض نہ کیا ۔ بلکہ کئی ایسی کالونیاں بنائی گئیں جن کو اس وقت کی سیاسی حکومتوں نے جائز تصور کرنے کے احکامات بھی جاری کئے ۔ بلکہ روشنی ایکٹ کے تحت سرکار نے از خود زمین الاٹ کی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ روشنی ایکٹ کا سہارا لے کر بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئی ہیں اور جنگلات کی اراضی کے بڑے بڑے پلاٹ سیاسی بنیادوں پر فراہم کئے گئے ہیں ۔ اس طرح سے موقع غنیمت جان کر بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کیا گیا ہے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سرکار نے اس طرح کے کسی بھی قانون کو ماننے سے انکار کیا اور روشنی ایکٹ کے تحت الاٹ کی گئی اراضی واپس لینے کے احکامات دئے ۔ پھر اندازہ لگایا جارہاتھا کہ اراضی کی واگزاری کی شروعات ان لوگوں سے کی جائے گی جو اونچے ایوانوں کا حصہ رہے ہیں ۔ لیکن یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کی ساری کاروائی غریب عوام تک محدود رکھی گئی ہے اور ماضٰ میں حکومتوں کا حصہ رہنے والوں کو نہیں چھیڑا گیا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اصل کاروائی ایک بار پھر ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ہاتھوں میں دی گئی ۔ ڈپارٹمنٹ کے اہلکار پچھلے ستھر سالوں سے غریبوں کی کھال اتارنے اور امیروں کے نازنخرے اٹھانے میں بڑے ماہر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے ان سے بازی لے جانا کسی طور ممکن نہیں ۔ خالصہ سرکار کی واگزاری کے دوران انہوں نے ایک بار پھر اپنی مہارت دکھائی ۔ ایک طرف لیفٹنٹ گورنر اور ان کا سارا عملہ زور دے کر کہ رہاہے کہ ہڑپ کی گئی زمین واگزار کرنے کی پوری کاروائی امرا تک محدود رہے گی اور غریبوں کو آنچ نہ آنے دی جائے گی ۔ ڈسٹرک اور لوکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ تحریری ہدایات پر عمل کررہے ہیں ۔ انہیں اوپر سے جو آڈر مل گئے ہیں وہ اسی کے مطابق کاروائی کررہے ہیں ۔ اس کی زد میں جو کوئی بھی آئے گا متاثر ہوگا ۔ ان کے کہنے کے مطابق آڈر میں اعلیٰ اور ادنیٰ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انتظامی اہلکاروں کے درمیان مقابلے کی صورت بنی ہوئی ہے ۔ سرینگر انتظامیہ زیادہ سے اراضی واگزار کرانا چاہتی ہے ۔ اننت ناگ کا ڈی سی چاہتا ہے کہ وہی سب سے آگے رہے ۔ بارھمولہ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ ان کے اعداد و شمار سب سے اوپر رہیں ۔ پلوامہ پیچھے رہنے کے حق میں نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میٹنگوں میں کارکردگی کا جائزہ لیتے وقت انہی باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ وہاں مارکس اسی بنیاد پر دئے جاتے ہیں کہ کون سا آفیسر آڈر پر عمل کرنے میں سب سے آگے رہاہے ۔ بصورت دیگر انہیں ناکام آفیسر مانا جاتا ہے ۔ پھر یہ بات نچلی سطح تک جاتی ہے ۔ پٹواریوں کو شاباشی اس بات پر ملے گی کہ انہوں نے کتنی اراضی کی نشاندہی کی اور کس قدر واگزار کرائی ۔ پھر لوگ کتنا بھی واویلا کریں کہ ان کی ملکیتی زمین بھی کاہچرائی اور خالصہ سرکار کی زد میں لائی گئی کوئی سننے والا نہیں ہوگا ۔ یہاں تو پرفارمنس کا معاملہ ہے ۔ ہر سرکاری اہلکار کو اپنا آفیسر اور ہر آفیسر کو اپنا باس خوش کرنا ہے ۔ ایسے میں جائز اور ناجائز کبھی زیر نظر نہیں رہتا ۔ کوئی بھی آفیسر خود کو ناقابل ٹھہرانے کے لئے تیار نہیں ۔ اب اگر واقعی انتظامیہ بڑی مچھلیوں سے نمٹنا چاہتی ہے تو اس کام میں دیر نہیں ہونی چاہئے ۔ ورنہ غریبوں اور لاچاروں کا مارا جانا یقینی ہے ۔
