وزیراعظم نریندر مودی نے اتوار کو اپنے من کی بات پروگرام میں سیاحوں کو کشمیر آنے کے لئے کہا ۔ انہوں نے برف باری کی وجہ سے کشمیر کے حسن میں اضافہ ہونے اور ایک دیدہ زیب نظارہ پیش کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ ان نظاروں کا لطف اٹھانے کے لئے کشمیر آئیں ۔ اس موقعے پر وزیراعظم نے برف پر کرکٹ کھیلنے کا ذکر کیا اور اس کو کھیلوں کے لئے تفریح کا ایک نیا اضافہ قرار دیا ۔ سوشل میڈیا پر کئی روز پہلے یہاں برف پر کرکٹ کھیلنے کا ایک ویڈیو وائرل ہوگیا تھا جو کسی طرح سے وزیراعظم کی توجہ کا مرکز بنا ۔ وزیراعظم نے اس دلچسپ نظارے کا اپنے پروگرام میں ذکر کیا اور اس کے بہت سراہانا کی ۔ اسی طرح پہاڑوں ، میدانوں ، سڑکوں اور دوسری جگہوں پر برف کی سفید چادر سے جو خوبصورت نظارہ یہاں بن گیا ہے وزیراعظم نے اس کا بہترین انداز میں ذکر کیا اور سیاحوں کو ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا مشورہ دیا ۔ وزیراعظم کی ان باتوں سے یقینی طور عوام پر اثر پڑے گا ۔ امید کی جارہی ہے کہ ان کے کشمیر کے حوالے سے کی گئی تعریفوں سے عوام ونٹر ٹورازم کی طرف راغب ہونگے ۔ سرمائی کھیلوں کے علاوہ برف باری کا نظارہ دیکھنے کے لئے کئی جتھے پہلے ہی کشمیر وارد ہوئے ہیں ۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے جو کچھ بھی کہا اس کے اثر سے یقینی طور سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوگا ۔ کشمیر میں عوامی حلقوں خاص کر سیاحت سے جڑے لوگوں نے وزیراعظم کی ان باتوں کو بہت ہی پسند کیا اور امید جتائی ہے کہ اس سال ونٹر ٹورازم کو فروغ ملے گا ۔
پچھلے کئی سالوں سے کشمیر سیاحت کو نئے طرز سے فروغ ملا ہے ۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں یہاں آنا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ کئی موقعوں پر سیاحوں کے لئے ہائوس بوٹوں اور ہوٹلوں میں جگہ تلاش کرنا مشکل ہوگیا ۔ کچھ روز پہلے یہ بات سامنے آئی کہ گلمرگ اور پہلگام میں بڑی تعداد میں سیاح موجود ہیں اور ان کی آمد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ اس وجہ سے سیاحت سے جڑے لوگوں کی خوشی میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ۔ کشمیر کے حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ یہاں ہر موسم میں سیاحوں کے لئے دلچسپی کے نظارے پائے جاتے ہیں ۔ جب بھی اور جس موسم میں بھی سیاح یہاں آئیں انہیں تفریح کے لئے کافی کچھ مل پائے گا ۔ ایسا نہیں ہے کہ کشمیر صرف بہار کے موسم میں دیدہ زیب ہوتی ہے ۔ بلکہ خزان میں جب درختوں سے پتے جھڑنے لگتے ہیں تو ایسا نظارہ بہار سے کم دلکش نہیں ہوتا ہے ۔ اسی طرح سرما کے شدید سرد موسم میں یہاں پانی کے جھرنے ، جھیل اور برف سے ڈھکے پہاڑ اپنا الگ نظارہ پیش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہاں کئی جگہوں پر سرمائی کھیلوں کے لئے بھی انتظام ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا ابھی تک ان باتوں سے بے خبر ہے اور سیاحت کے گرویدہ لوگ کشمیر کے اصل نظاروں سے بے خبر ہیں ۔ دنیا کو آج تک یہی بتایا گیا کہ یہاں بہار کے موسم میں قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے لئے آنا چاہئے ۔ باقی سال یہاں کیا صورتحال ہوتی ہے اور کیسے دلکش نظارے ہوتے ہیں کسی کو اس بارے میں معلومات نہیں ہیں ۔ یہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ممکن ہوا کہ لوگوں تک یہاں کے دوسرے موسموں میں دیکھے جانے والے نظاروں کے بارے میں حقایق معلوم ہوسکے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس سال سرما کی ٹھنڈ کے دوران بھی یہاں کئی جگہوں پر سیاح موجود پائے گئے ۔ لوگ پچھلے کئی سالوں سے کووڈ کی وجہ سے سخت تنگ آچکے ہیں اور گھر میں قید رہنے کی وجہ سے سخت ذہنی تنائو کا شکار ہیں ۔ لوگوں کی خواہش ہے کہ گھروں سے نکل کر خوبصورت اور آزاد ماحول سے لطف اندوز ہوجائیں ۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ایسی قدغن کے بعد ہر شہری باہر جاکر آزاد ماحول میں گھومنا پھرنا اور سیر وتفریح کرنا چاہتے ہے ۔ ایسے حالات سے پیچھا چھڑانے اور ذہنی تنائو کو دور کرنے کے لئے کشمیر سیاحت بہترین متبادل ہے ۔ کشمیر آکر اپنی تھکن اور ذہنی تنائو کو آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے ۔ پرانے زمانے میں بادشاہ ، نواب یہاں تک کہ سیاسی رہنما جب کام کے بوجھ کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس کرتے تھے تو اس تھکاوٹ کو دور کرنے کے لئے وہ کشمیر کا رخ کرتے تھے ۔ یہاں سے تازہ دم ہوکر واپس اپنی رہائش گاہ کی طرف جاتے تھے ۔ انہیں لگتا تھا کہ یہاں کے قدرتی نظاروں سے تھکن دور ہوجاتی ہے ۔ واقعی ایسا ہوتا تھا ۔ آج بھی جو سیاح یہاں آتے ہیں تو ان کے واپسی پر تاثرات بڑے حوصلہ افا ہوتے ہیں ۔ وہ جتنے دن یہاں گزارتے ہیں واپس جاکر وہ اس پر پچھتاتے نہیں بلکہ تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔ قدرتی نظاروں کے علاوہ اپنے میزبانوں کے رویے سے بھی بڑے متاثر ہوتے ہیں ۔ اب وزیراعظم نے اپنے ایک اہم پروگرام میں یہاں برف باری سے پیدا ہوئے نظاروں کی تعریف کی تو اس سے اثر لے کر بڑے پیمانے پر سیاحوں کے آنے کا امکان ظاہر کیا جارہاہے ۔ اس سے سیاحت کی صنعت کو فروغ ملنے کی توقع کی جاتی ہے ۔ سیاحوں کی تعداد بڑھ پائے گی کہ نہیں تاہم وزیراعظم کا اپنے پروگرام میں سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دینا ایک بڑی بات ہے ۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جس کا سیاحتی حلقوں پر اثر پڑنا یقینی ہے ۔
