
”تعلیم نسواں“ دو الفاظ کا مرکب ہے، تعلیم اور نسواں۔ تعلیم کا مطلب ہے ”علم حاصل کرنا“۔اور نسواں ”نساء“سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے خواتین۔ گویا تعلیم نسواں سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی سے پورا خاندان تعلیم یافتہ بن سکتا ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں جہاں خواتین صدارت اور وزارت تک پہنچ گئی ہیں،وہیں کئی علاقہ جات میں خواتین تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں۔جہاں دسویں اور بارھویں جماعت کے بعد بیٹیوں کو بارچی خانہ کا کام سیکھا کر بیاہ دینے کی بات کی جاتی ہے۔ پسماندہ علاقوں میں خواتین کی تعلیم بھی پسماندہ ہو جاتی ہے کیونکہ ان علاقہ جات میں اعلی تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہوتی اور اعلیٰ تعلیم کی خاطر شہروں کا رُخ کرنے میں معاشی کمزوریاں دیوار بن جاتی ہیں۔یہ قول مشہور ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ بچہ جو کچھ اس درس گاہ سے سیکھتا ہے وہ اس کی آئندہ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔اپنے بچے کی بہترین تربیت کے لئے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ مفکرین کی رائے میں ”مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے“۔موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ایسے میں اگر کسی ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین پسماندہ ہوں گی تو وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ لہٰذا عورتوں کے لئے تعلیم کا حصول اور واقفیت سے آراستہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت ہی دورِ حاضر کے اس نئے ماحول سے مطابقت کرسکتی ہے۔ تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیرآسانی سے دوسرے تک پہنچاسکتی ہے۔ اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کرسکتی ہے۔ اپنے خاندان اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ ہی بنے۔ عورت کی اولین ذمہ داری اس کا گھر ہے۔ وہ پڑھی لکھی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین تعلیم سے دور اور مشکلات بھری زندگی گذار رہی ہیں۔
اس سلسلے میں وکالت کرنے والی ایڈوکیٹ رخسار کوثر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ضلع پونچھ میں لڑکیوں کا اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہونے کا سب سے بڑی وجہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کرا دینا ہے۔انہوں نے بتایاکہ مینڈھر کی رہنے والی افسانہ نامی لڑکی نے آپ بیتی سناتے ہوئے کہاکہ ’مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن میں نے یہ کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ ایک شادی میری زندگی برباد کر دے گی۔ 2012ءمیں دسویں جماعت میں پڑھنے والی افسانہ کی والدین نے اس کی شادی کرادی اور یہ تسلی بھی دی کہ آگے کی پڑھائی وہ سسرال جانے کے بعد جاری رکھ سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔انکا کہنا تھا کہ شادی کے فوراً بعد اس کے ساتھ سسرال والوں نے مار پیٹ شروع کر دی۔ جس کی وجہ سے وہ تنگ آ کر پھر اپنے والدین کے گھر واپس آگئی اور اس امید میں بیٹھی ہے کہ اس کاشوہر واپس آ کر اسے باعزت طریقے سے اپنے گھر واپس لے جائے یا پھر اس رشتے سے آزادکر دے۔ اس سلسلے میں ناظمہ چوہدری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ دیہی علاقوں میں تعلیم حاصل کرنا ایک بڑا کام ہے۔ خواتین پہلے ہی تعلیم میں پسماندہ ہیں اور اگر کوئی تعلیم حاصل کرنا بھی چاہے تو پسماندہ علاقہ اور پسماندہ معاشرہ اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے علاقے کو چھوڑ کر کسی بڑے شہر میں منتقل ہو۔ناظمہ کہتی ہیں کہ پسماندہ علاقہ کی خواتین تعلیم سے محروم اس لئے بھی ہے کہ دور درازکے دیہی علاقوں میں تعلیم تک رسائی مشکل ہے۔ اسکی اہم وجہ تعلیمی اداروں کی کمی بھی ہے۔انہوں نے کہاکہ پسماندہ علاقوں میں تعلیم صرف مردوں کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے اور خواتین کو فقط گھر کے کاموں کے لئے ہی اہل سمجھا جاتا ہے۔ناظمہ کہتی ہیں کہ نادیہ نامی ایک لڑکی، ضلع ریاسی کے ایک پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھتی ہے اس نے بتایاکہ ’میں اپنی تعلیم صرف مڈل اسکول تک ہی جاری رکھ پائی اور وہ بھی کافی مشکل سے۔کیوں کہ اسکول بھی دور تھا اور راستہ بھی طویل تھا اور پھر کوویڈ کے آنے سے بھی تعلیم پر روک لگ گئی حالانکہ مجھے تعلیم کا کافی شوق تھا اس کے علاوہ میرے گھر کے معاشی حالت بھی حصول تعلیم میں دیوار بن گئی۔
خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں ریحانہ کوثر نے بتایا کہ اس علاقہ میں کئی خواتین نے اپنی تعلیم چھوڑ دی ہے۔ بیس سالہ گلشن فاطمہ نے اسکولی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا ہے۔گلشن نے صرف دسویں جماعت تک پڑھائی کی ہے کیونکہ اسکے گھر والوں نے اسے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ لڑکیوں کو گھریلو کام کاج کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے جبکہ ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کے لئے خواتین کی تعلیم انتہائی ضروری ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ مرد کی تعلیم کے لئے سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے لیکن عورت کی تعلیم کے لئے سمجھوتہ معاشرے کے لئے خطرناک ماناجاتا ہے۔ریحانہ نے کہا کہ تعلیم و تربیت اور ڈگری دونوں میں فرق ہے۔ایک کا تعلق شعور، طرز عمل، اچھا انسان بننے اور ذمہ داری کے احساس سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق صرف کاغذ کے ٹکڑے سے ہے۔ در حقیقت تعلیم و تربیت یافتہ خواتین ہی معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔(چرخہ فیچرس)
