لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے امید ظاہر کی ہے کہ کشمیری پنڈت بہت جلد وادی واپس لوٹ آئیں گے ۔ اس حوالے سے بات کرت ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کے لئے تعمیر کئے گئے رہائشی فلیٹ بہت جلد ان کے حوالے کئے جائیں گے ۔ یہ فلیٹ سرکار کی طرف سے تعمیر کئے گئے ہیں ۔ ان فلیٹوں کے لئے حفاظت کا مناسب انتظام ہونے کی وجہ سے امید کی جارہی ہے کہ کشمیری پنڈت واپس آکر ان میں اطمینان سے رہنا پسند کریں گے ۔ یاد رہے کہ کشمیری پنڈتوں کا بڑا طبقہ پچھلے کئی ہفتوں سے جموں میں احتجاج کررہاہے ۔ وادی میں مخصوص کوٹا کے تحت تعینات یہ ملازم جموں میں تعیناتی اور تنخواہ کی واگزاری کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ کشمیر میں پچھلے سال ایسے کئی ملازموں کی ہلاکت کے بعد ان پنڈت ملازموں نے بھاگ کر جموں میں پناہ لی ۔ اس دوران سرکار نے ان کی واپسی تک انہیں تنخواہ ادا نہ کرنے کے احکامات دئے ۔ لیکن یہ پنڈت ملام خوف کی وجہ سے واپس آنے کے لئے تیار نہیں ۔ اس معاملے پر ان کی حکومت کے ساھ ٹھن گئی اور انہوں نے زبردست احتجاج کرنا شروع کیا ۔ طرفین کے مابین سخت تنازع پایا جاتاہے ۔ حکومت ان کی واپسی پر زور دے رہی ہے جبکہ پنڈت ملازم اپنی جان خطرے میں ڈالنے کو تیار نہیں ۔ حکومت مخالف سیاسی حلقے پنڈتوں کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان سے ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں ۔ اس کے بجائے حکومت چاہتی ہے کہ احتجاج کرنے کے بجائے پنڈت ملازم ان کی بات پر عمل کریں ۔ پنڈتوں کے ایک احتجاج کے موقعے پر ایل جی نے انہیں یقین دلایا کہ ان کا مسئلہ بہت جلد حل کیا جائے گا ۔
کشمیری پنڈتوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کا مسئلہ انسانی ہمدردی کے بجائے ایک سیاسی ایشو بن گیا ۔ نوے کی دہائی میں جب یہ پنڈت کشمیر سے بھاگ گئے تو کئی سیاسی حلقوں نے ان کی حالت زار کو بڑھاچڑھاکر پیش کرنا شروع کیا ۔ پنڈتوں کے ساتھ ہمدردی کے معاملے میں اس زمانے میں بی جے پی سب سے آگے تھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈتوں کا مسئلہ باضابطہ ایک سیاسی تنازع بن گیا اور اس پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس مسئلے کو حل کرنا زیادہ مشکل نہ تھا ۔ لیکن کئی پنڈت لیڈروں کی خود غرضیوں اور سیاسی حلقوں کی سیاست گری کی وجہ سے یہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بن گیا ۔ اس دوران کئی مرحلوں پر ایسا لگا کہ حالات میں بہت حد تک سدھار آگیا ہے اور مفرور پنڈت واپس آکر یہاں امن و سکون کی زندگی گزارسکتے ہیں ۔ لیکن کسی وجہ سے اس کو عملی شکل نہیں دی جاسکی ۔ اب موجودہ سرکار چاہتی ہے کہ پنڈتوں کو واپس لاکر مخصوص کالنیوں میں بسا یا جائے ۔ کئی پنڈت گھرانے پہلے ہی ان رہائشی کالنیوں میں رہائش پذیر ہیں ۔ تاہم ایسے بیشتر پنڈتوں کی خواہش ہے کہ واپسی کی صورت میں انہیں مخصوص کالنیوں کے بجائے اپنے آبائی گھروں میں رہنے کی اجازت دی جائے ۔ حکومت اس پر آمادہ نہیں ہے ۔ اس حوالے سے پنڈتوں کو یقین دلانا کہ وہ اپنے گھروں میں رہ سکتے اور یہاں انہیں کوئی خطرہ نہیں بہت مشکل ہے ۔ ایسی یقین دہانی کرنے کو کوئی تیار نہیں ۔مقامی لوگ ایسا کرنے کو تیار ہیں نہ حکومت ایسا رسک لینے پر آمادہ ہے ۔ اگرچہ حکومت حالات میں بہت حد تک بہتری آنے کا دعویٰ کررہی ہے ۔ تاہم پنڈت ایسا سافٹ ٹارگٹ ہیں جن پر حملہ کرنا کسی کے لئے بھی مشکل نہیں ۔ اس وجہ سے امن کو تباہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔حکومت ایسی صورتحال کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوسکتی ۔ پنڈتوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ آج بی جے پی کی حکومت بنی تو کل ان کی واپسی کا راستہ کھل جائے گا ۔ انہیں ایسی ہی یقین دہانیاں کی گئی تھیں ۔ اب دس سال سے بی جے پی ملک کے سیاہ و سفید کی مالک ہے ۔ اس دوران کشمیر خطہ بھی مرکز کی براہ راست حکمرانی میں ہے ۔ پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے تیس سالوں سے اس طرح کی صورتحال کا انتظار کررہے ہیں ۔ اب کہنے کو باقی کچھ نہیں بچا جس کا انتظار کرتے ہوئے وہ وادی سے باہر رہیں ۔حالات نے اس وقت کروٹ بدلی جب پنڈت ملازموں کو بھی یہاں سے بھاگنا پڑا ۔ اس وجہ سے حالات نے پھر پلٹا کھایا اور پنڈتوں کے واپسی کے امکانات معدوم ہونے لگے ۔ سرکار بار بار یقین دلاتی رہی کہ وہ پنڈتوں کے معاملے میں سنجیدگی سے غور کررہی ہے ۔ تازہ ترین بیان میں لیفٹنٹ گورنر نے ایک بار پھر پنڈتوں کی جلد واپسی کا اعلان کیا ۔ اس اعلان پر کیا واقعی عمل ہوگا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پنڈتوں کی نئی نسل اتنی مصروف ہے کہ ان کے لئے گھر واپسی کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ۔ ان میں سے بہت سے نوجوان اب ملک سے باہر کام کررہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں گھر سے زیادہ اپنے مستقبل کی فکر ہے ۔ البتہ اس دوران جو نئے لیڈر ابھر آئے وہ اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کو تیار نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پنڈتوں کا مسئلہ سیاسی تناظر کے بجائے انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے ۔
