ڈوڈہ کے بعد رام بن علاقے میں زمین دھنس جانے اور مکانات میں دراڑیں پڑنے سے لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ رام بن کے گول سنگل دان کے گائوں میں زمین دھنس جانے سے پانچ مکانات کو نقصان پہنچا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرے کئی مکانات میں دراڑیں پائی جاتی ہیں ۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ خطرے کے پیش نظر وہاں رہائش پذیر لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا گیا ہے ۔ جہاں مبینہ طور ان کے لئے رہائش کے علاوہ مفت کھانے پینے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے ڈوڈہ میں اسی طرح کی آفت پیش آئی تھی ۔ ڈوڈہ میں کئی مکانات میں بغیر کسی خاص سبب کے مکانات میں اچانک دراڑیں پیدا ہونے لگی تھیں ۔ اس کے بعد کئی مقامی ماہرین کے علاوہ مبینہ طور دہلی سے بھی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس جگہ کا جائزہ لیا ۔ رام بن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کئی دوسری جگہوں پر بھی اس طرح کے خطرات محسوس کئے جارہے ہیں ۔ انتظامیہ نے حساس جگہوں کا جائزہ لیا ہے ۔ تاہم لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ کئی ماہ پہلے کوکرناگ علاقے میں زمین دھنس جانے سے وہاں سے بہنے والے نالے کا پانی زیر امین چلا گیا تھا ۔ اس مقام کا بھی کئی ماہرین نے جائزہ لیا ۔ وادی بھر میں اس حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔ تاہم ماہرین نے بروقت حالات کا جائزہ لے کر کسی قسم کے خطرے کے امکان کو مسترد کیا ۔ اب ڈوڈہ اور رام بن میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال پائی جاتی ہے ۔
پورا کرہ اراض کچھ عرصے سے قدرتی آفات کی زد میں ہے ۔ اس طرح کی تبدیلیاں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ زمین پر آبادی بڑھ جانے اور دوسری کچھ جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے اس طرح کی صورتحال کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے جس کا وقفے وقفے سے اظہار ہوتا ہے ۔ اس کا لوگوں کی زندگی پر منفی اثر پڑنا یقینی ہے ۔ لوگ خوف وہراس سے دوچار ہوتے ہیں ۔ پہلے ایسے واقعات خال خال ہی سامنے آتے تھے اور دور دور تک اس کی لوگوں کو خبر نہیں ہوتی تھی ۔ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسے واقعات بہت جلد طول وعرض میں پھیل جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے جہاں تشویش میں اضافہ ہوتا ہے وہاں بروقت اس کی وجوہات کا بھی پتہ چل جاتا ہے ۔ یہ ایسے کوئی واقعات نہیں جن کا تجزیہ کرکے ان کا سبب معلوم نہ کیا جائے ۔ یہ ایسے کوئی عقل سے ماورا واقعات یا حادثات بھی نہیں جس کا ماہرین وجہ بتا نہ پائیں ۔ انسانی علم نے بہت ترقی کی ہے جہاں ایسے آفات کا اندازہ لگانا یا اس کا سبب معلوم کرنا مشکل نہیں ۔ بلکہ ایسی چیزیں کسی حد تک پیشگی پتہ چل جاتی ہیں ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ جموں کشمیر ایسا علاقہ ہے جہاں اس طرح کے واقعات پیش آنے کے حوالے سے پہلے ہی اشارے دئے گئے ہیں ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایسے واقعات کے حوالے سے باخبر ہونے کے باوجود پیشگی تیاری نہیں کرتے ہیں ۔ دوسری طرف ماضی میں ایسی غلطیاں ہوئی ہیں کہ ایسی پیش گوئیوں کو نظر انداز کرکے غیر محفوظ مقامات پر بستیاں آباد کی گئیں ۔ آج کی نسل ان چیزوں کے بارے میں حساس ہے اور زندگی گزارنے کے لئے ایسی باتوں کا پہلے سے خیال کرتی ہے ۔ لوگ وہاں مکانات بناتے ہیں جہاں انہیں پوری طرح سے معلوم ہو کہ غیر محفوظ علاقہ نہیں ہے ۔ اسی طرح مکانات تعمیر کرنے سے پہلے ماہرین سے ضرور مشورہ لیا جاتا ہے ۔ پھر ان مشوروں کے مطابق تعمیرات کھڑا کی جاتی ہیں ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے ۔ ہم جس دور سے گزر کر آئے ہیں وہ رشوت ستانی کا دور رہاہے ۔ بدقسمتی سے سرینگر اور دوسرے میونسپل علاقوں میں میونسپل ماہرین آنکھیں بند کرکے لوگوں کو تعمیرات کے لئے اجازت نامے فراہم کرتے تھے ۔ بلکہ کچھ لے اور کچھ دے کی بنیاد پر ایسے اجازت نامے اجرا کئے جاتے تھے ۔ یہ دیکھے بغیر کہ نشاندہی کی گئی اراضی کسی تعمیر کے لئے موذون بھی ہے کہ نہیں ۔ اس کج فہمی کا خمیازہ عوام کو اٹھانا پڑرہا ہے ۔ اس طرح کی لاقانونیت کے زمانے میں جو تعمیرات کھڑا کی گئیں ان پر خرچ کیا گیا سرمایہ لگتا ہے کہ پوری طرح سے جایع ہوا ہے ۔ ایسی زمینوں پر مکانات تعمیر کئے گئے جو کسی طور بھی محفوظ نہیں ۔ اس وجہ سے سب کچھ ضایع ہوکر رہ گیا ۔ آج یہ چیزیں جہالت کی پیداوار قرار دی جارہی ہیں ۔ بروقت تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا ہوتا تو آج اس کا خمیازہ نہ اٹھانا پڑتا ۔ اب لوگ بیدار تو ہوگئے لیکن کل جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی آج کرنا ممکن نہیں رہاہے ۔ سرکاری اراضی اور کاہچرائی پر تعمیر کئے گئے مکانات کا حال بھی یہی ہے ۔ اس وجہ سے اب عام لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ مستقبل کے حوالے سے ضروری ہے کہ لوگ ان خطرات اور خدشات کا خیال رکھیں ۔ اس معاملے میں جہالت اور کود غرضی سے بچنا بہت ضروری ہے ۔ بعد میں نقصان کسی اور کو نہیں بلکہ ہمیں ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔
