چیف جسٹس جی وائی چندر چوڑ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرول نہیں رہاہے ۔ اس وجہ سے سچی خبروں پر جھوٹ حاوی ہوگیا ہے ۔ سوشل میڈیا سے جھوٹی خبریں بڑے پیمانے پر وائرل ہورہی ہیں اور سچائی کمزور ہوکر رہ گئی ہے ۔ چیف جسٹس دہلی میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔ سوشل میڈیا کے طرز عمل پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جھوٹی خبروں کے پھیلائو کی وجہ سے سچ اس کا شکار ہوکر رہ گیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے پوری سوسائٹی متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ جھوٹی خبروں کے اثر سے لوگوں میں اعتماد اور صبر کی کمی پائی جاتی ہے ۔ چیف جسٹس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کئی موقعے میسر آنے کے باوجود عالمی برادری نے کوئی اثر نہیں لیا ۔ اس وجہ سے یہ موقعے ضایع ہوکر رہ گئے ۔ انہوں نے عالمی دہشت گردی کے علاوہ کووڈ 19 کا ذکر کیا اور کہا کہ اس موقعے پر عالمی سطح پر کچھ اہم اقدامات کئے جاسکتے تھے ۔ لیکن ایسے قدم نہیں اٹھائے گئے اور کوئی عالمی پروٹوکول نہیں بن سکا ۔ اس طرح سے پوری برادری صحیح سمت میں نہیں جارہی ہے ۔
سوشل میڈیا کو بغیر لگام کے چھوڑدینا اور اس کے لئے صحیح لائحہ عمل تیار نہ کرنے پر کئی حلقے مسلسل افسوس کا اظہار کررہے ہیں ۔ خاص طور سے ہر شخص کے میڈیا رپورٹر بننے کے حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ کئی حلقوں نے سرکاری حلقوں کو بروقت باخبر کیا تھا ۔ لیکن آج تک اس معاملے میں کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔ اس کا براہ راست اثر میڈیا پر پایا جاتا ہے ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہر گھر اور ہر گلی میں اب میڈیا اہلکار پائے جاتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ان پڑھ اور میڈیا کے اصول و ضوابط سے بے خبر لوگ میڈیا کے ہرکارے بنے ہوئے ہیں ۔ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ جو خبر وہ مشتہر کررہے ہیں یہ صحیح ہے یا محض افواہ ہے ۔ بلکہ سوشل میڈیا سے افواہوں کو پھیلانے کا آسان ذریع میسر آیا ہے ۔ شہریوں کی آزادی کے نام پر آئین اور عوام کے ساتھ مزاق کیا جارہاہے ۔ پرنٹ میڈیا اپنے طور سخت کوشش کرتا تھا کہ خبروں کو منظر عام پر لانے سے پہلے ان کی اصلیت معلوم کی جائے ۔ لیکن سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد جہاں خبروں کی بروقت تشہیر ممکن ہوئی وہاں اس وجہ سے غیر معتبر ادارے وجود میں آئے ۔ ایسے اداروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جو خبر وائرل کی جارہی ہے اس کا کوئی صحیح سورس یا بھی کہ نہیں ۔ اگرچہ حکومت نے سائبر فراڈ کو روکنے کے لئے باضابطہ ادارہ قائم کیا ہے ۔ لیکن اس کا دائرہ عمل محدود ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر قانونی گرفت مضبوط نہیں کی جاسکی ۔ سائبر سیل کاکام سرکاری مفادات کا تحفظ ہے اور بعض اداروں کو بلا وجہ بدنام کرنے سے لوگوں کو روکنا ہے ۔ اس کا کام سوشل میڈیا کو دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے ۔ اس کام میں یہ ادارے بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔ تاہم عام لوگوں کے مفادات کا تحفظ تاحال ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔ خاص طور سے سوشل میڈیا کا استحصالی عناصر سے روکنا ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔ آج بھی بہت سے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرکے لوگوں کو ورغلاتے اور بلیک میل کرتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے پہلے پرنٹ میڈیا کا جو معیار اور اعتبار پایا جاتا تھا وہ متاثر ہورہاہے ۔ ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ اخبارات کی قدر وقیمت نہیں رہی ہے ۔ اس وجہ سے سماجی اقدار اور تہذیبی معیارات بھی ختم ہوچکے ہیں ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ ملک کی سب سے بااختیار شخصیت نے یہ مسئلہ اٹھاکر ذمہ دار اداروں کو اس کا نوٹس لینے کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ انہوں نے گلوبلائزیشن کے تناظر میں اس مسئلے کا حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے ۔ اس وجہ سے معاملہ حل کرنے میں کوئی پیش رفت سامنے آئے گی کہ نہیں ۔ یہ بعد میں معلوم ہوگا ۔ تاہم یہ بات بڑی اہم ہے کہ اعلیٰ سطحی حلقوں میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جارہاہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں اس کے استعمال کو روکا نہیں جاسکتا ۔ ایسا سوچنا صحیح طرز عمل نہیں ۔ تاہم اس وجہ سے جو برائیاں اور خرابیاں پیدا ہورہی ہیں ان کا اذالہ از حد ضروری ہے ۔ اس پر بروقت سوچ بچار نہ کیا گیا تو سماج کے کھوکھلا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ سماجی کارکن پہلے ہی ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اس مسئلے پر بڑے پیمانے پر تشویش کا اظہار کیا جارہاہے ۔ ملک کے علاوہ جموں کشمیر میں بھی یہ ایک سنگین مسئلہ خیال کیا جاتا ہے ۔ یہاں سوشل میڈیا نے ایک ناسور بن کر پورے سماج پر اثرات ڈالنا شروع کئے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بیشتر سرکاری اہلکار اپنے مفادات پورا کرنے کے مقصد سے اس کا سہارا لیتے ہیں ۔ اپنی بے جا تعریفوں کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو آگے بڑھانے میں مدد کی جارہی ہے جو اس کا کھلے عام استعمال کرتے ہیں ۔ اس پر تشویش ایک عام شہری سے لے کر چیف جسٹس تک پائی جاتی ہے ۔ اس پر روک لگانا ضروری ہے ۔ تاہم اس کی آڑ میں آزادی صحافت پر تیشہ نہیں چلایا جانا چاہئے ۔
