وزیراعظم کا کہنا ہے کہ طبی خدمات فراہم کرنا ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ۔ بیرونی ممالک پر انحصار کم کرکے ملک کے اندر معیاری ادویات تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس کام کے لئے مسلسل کوششیں کررہی ہے تاکہ لوگوں کو معیاری طبی خدمات فراہم کی جائیں ۔ وزیراعظم مابعد بجٹ کے حوالے سے خطاب کررہے تھے ۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ شعبہ صحت کو آگے بڑھانے کے لئے کوئی مربوط منصوبہ بندی نہ کرنے کی وجہ سے یہ شعبہ اب تک عوام کی خواہشات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ۔ تاہم موجودہ سرکار اس شعبے پر پوری تن دہی سے کام کررہی ہے ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ بہت جلد صحت شعبے کو خود انحصار بناکر لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔ اس دوران جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے جموں میں جن اوشدھی دیوس کے موقعے پر اپنے ورچیول خطاب میں زور دیا کہ عام ادویات کو مقبول بنانے اور صحت اسکیموں کو شہریوں تک پہنچانے کی کوششیں کی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی اسکیمیں لوگوں کے لئے فائدہ مند ہونے کے علاوہ ان کے صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں ۔ ایل جی نے شعبہ صحت کے کارکنوں پر زور دیا کہ اس مشن کو آگے بڑھانے میں مدد دیں ۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ موجودہ سرکار عام شہریوں کے صحت کو بہتر بنانے کے لئے فکر مند ہے ۔ جموں کشمیر میں صحت کا شعبہ انتہائی غیر معیاری ہے اور لوگ اس پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ۔ اس حوالے سے تازہ واقعہ صورہ میں قائم میٹرنٹی سنٹر میں پیش آیا جہاں ایک حامل خاتون کی موت ہوئی ۔ اہل خانہ اور وہاں موجود دوسرے کئی لوگوں کا الزام ہے کہ خاتون کی موت مبینہ طور طبی عملے کی لاپروائی سے ہوئی ہے ۔ ہسپتال حکام اس الزام کو مسترد کرتے ہیں ۔ تاہم یہ بات ناممکن نہیں کہ عملے کی غفلت کی وجہ سے یہ موت ہوئی ہو ۔ یہاں اس طرح کے حادثات روز کا معمول ہیں ۔ کوئی دن یا کوئی ہسپتال ایسا نہیں جہاں اس طرح کے الزامات نہ۰ لگائے جاتے ہیں ۔ خاص طور سے زنانہ ہسپتالوں میں زچہ اور بچہ کی اموات کے معاملے میں اس طرح کے الزامات بڑے پیمانے پر لگائے جاتے ہیں ۔ جن لوگوں کو اس طرح کے ہسپتالوں اور وہاں کام کررہے کارکنوں سے واسطہ پڑا ہے وہ ایسے واقعات کا چشم دید گواہ ہونے کا اقرار کرتے ہیں ۔ ایسے ہسپتالوں میں عام طور پر غریب اور بے بس شہری علاج معالجہ کے لئے آتے ہیں ۔ ڈاکٹر اور دوسرے کارکن ان سے کھلواڑ کرنا کوئی مشکل نہیں مانتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے عام شہریوں کی پہنچ زیادہ دور تک نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے علاج کے نام پر مزاق کیا جاتا ہے ۔ خاص کر آپریشن تھیٹر میں ان کی جان بچانے کے بجائے انہیں موت کے حوالے کیا جاتا ہے ۔ یہ ماننے کے لئے یقینی طور کوئی تیار نہیں کہ ڈاکٹر یا کوئی دوسرا شخص اس طرح سے کسی کو موت کے حوالے کرنا پسند کرے گا ۔ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ بیشتر ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں بھی مستیاں کرتے رہتے ہیں ۔ ایک طرف مریض تڑپ رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف فون پر ہنسی مخول کیا جاتا ہے ۔ ایسا کسی طور نہیں لگتا کہ ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں ہیں ۔ بلکہ یہ لوگ کسی ڈراما تھیٹر میں نظر آتے ہیں ۔ اس طرح کی صورتحال ایک عام بات ہے ۔ اس کے باوجود یہ اقرار کرنا ضروری ہے کہ حکومت نے پچھلے کچھ سالوں سے صحت شعبے پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ۔ اس ذریعے سے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے میں مدد ملی ۔ لوگوں کو گولڈن کارڈ فراہم کرکے انہیں ایسی سہولت فراہم کی گئی جس کا چند سال پہلے تصور کرنا ممکن نہ تھا ۔ یہ کارڈ حاصل کرکے لوگ بڑی آسانی سے ضرورت کی ادویات حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں کہ طبی عملے کو کہیں بھی جوابدہ نہیں بنایا جاسکا ۔ سرکاری ہسپتالوں میں جانا آج بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں ڈاکٹر ہر گز مریضوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتے ہیں ۔ اعلیٰ حکام کے لئے یہ بات ماننا ممکن نہیں ۔ وہ کبھی بھی عام شہری بن کر ان ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس نہیں گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اس طرح کے تجربات نہیں ہیں ۔ تاہم ایک عام شہری کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے لئے ان ڈاکٹروں اور ہسپتالوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہے ۔ یہ محض کچھ لوگوں کی مجبوری ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں انہیں کسی طور صحیح اور اطمینان بخش توجہ نہیں ملتی ۔ اس کے علاوہ دوسری ریاستوں میں علاج کے لئے جانا اب بھی جاری ہے ۔ امرتسر اور دہلی وغیرہ کا چکر کاٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں علاج ومعالجے کے غرض سے ان ریاستوں میں موجود ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں مریضوں کو صحیح توجہ نہیں ملتی ہے ۔ معیاری ادویات فراہم کرنا کافی نہیں ۔ بلکہ معیاری طبی سہولیات اور توجہ فراہم کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے ۔
