بڈگام میں لوگوں پر اس وقت لرزہ طاری ہوگیا جب پولیس نے ایک دوشیزہ کی ٹکڑوں میں کاٹی گئی لاش برآمد کی ۔قتل کی یہ واردات سوئیہ بوگ بڈگام میں اتوار کو پیش آئی ۔ پولیس کی طرف سے دی گئی تفصیل کے مطابق ایک طالبہ کو اغوا کرکے قتل کیا گیا اور لاش کو ٹکڑے کرکے کئی جگہوں پر چھپایا گیا ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹر کورس کرنے والی ایک طالبہ صبح گھر سے نکلی اور رات دیر گئے جب واپس نہیں پہنچی تو پولیس کو اس کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی ۔ پولیس نے باریک بینی سے کیس کاجائزہ لیا اور شک کی بنیاد پر کچھ افراد کو گرفتار کیا ۔ گرفتار کئے گئے افراد میں سے ایک شخص نے جرم کا اقرار کرتے ہوئے لاش کے ٹکڑوں کی نشاندہی کی ۔ کیس درج کرکے پولیس مزید تفتیش میں مصرو ف ہے ۔ قتل کے دوسرے پہلو بہت جلد سامنے آنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے ۔ اب تک ملی اطلاع کے مطابق قاتل کچھ عرصہ پہلے مقتولہ کے گھر مستری کا کام کرتا تھا ۔ اس دوران دونوں کی شناسائی ہوئی ۔ بعد میں قاتل نے مقتول لڑکی سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ لیکن شادی طے نہ ہوسکی ۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ شادی سے انکار کے بعد قاتل نے طیش میں آکر لڑکی کو اغوا کرکے قتل کیا ۔ اس واردات پر پورے علاقے میں سخت غم اور ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ لوگ مطالبہ کررہے ہیں کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔
بڈگام میں پیش آیا واقع اس حوالے سے منفرد ہے کہ کشمیر میں لاش کو مسخ کرنے کی یہ پہلی واردات ہے ۔ اس سے پہلے قتل کے بہت سے واقعات سامنے آئے ۔ لیکن قتل کے بعد مقتول کے جسم کے ٹکڑے کرنا اور ان ٹکڑوں کو مختلف جگہوں پر بکھیرنا اپنی نوعیت کا پہلا واقع ہے ۔ ملک کے دوسرے حصوں میں ایسے کئی واقعات خبروں کا حصہ بن گئے ۔ بلکہ کئی واقعات میں میاں بیوی کے درمیان تنازع ہوا تو قتل کرکے لاش کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔ لیکن کشمیر میں اب تک ایسا کوئی واقع پہلی بار سامنے آیا ۔ اس سے پہلی کئی لوگوں بلکہ میاں بیوی کے قتل کے بعض واقعات یہاں بھی پیش آئے ۔ خاوند نے اپنی بیوی پر شک کرکے یا بیوی نے کسی دوسرے مرد سے معاشقہ بڑھا کر خاوند کو قتل کیا ۔ لیکن قتل کے بعد لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف جگہوں پر زمین برد کرنے کا یہ پہلا واقع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے پر سخت خوف اور برہمی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ایک معصوم لڑکی کو اس طرح قتل کرنا بڑا ہے افسوسناک واقع ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کشمیر اب آہستہ آہستہ جرائم کی سرزمین بنتا جارہا ہے ۔ اس سے پہلے خود کشی کے سلسلہ وار واقعات سامنے آئے ۔ خود کشی کے بعد اب قتل کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ قتل عمد کے ایسے واقعات اچانک پیش نہیں آتے ۔ بلکہ پوری منصوبہ بندی کرکے انجام دئے جاتے ہیں ۔ اس دوران کسی طرح کی گھبراہٹ طاری نہ ہونا بہت ہی حیران کن بات ہے ۔ اس طرح کی واردات کے بارے میں تفصیل سننے سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں ۔ بیشتر لوگ ایسے ہیں جو ان واقعات کی تفصیل میں جانے سے گھبراجاتے ہیں ۔ بڈگام ہلاکت کوئی معمولی واقع نہیں بلکہ سفاکی سے کیا گیا قتل ہے ۔ پولیس نے جس انداز سے قاتل کو بے نقاب کیا وہ کمال کی مہارت ہے ۔ امید ہے کہ اب کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے اور ملوث فرد یا افراد کو سزا دلوانے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی جائے گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس واقعے کو دوسروں کے لئے عبرت کا باعث بنایا جائے ۔ بصورت دیگر ایسے واقعات روکنا مشکل ہوگا ۔آج اس معاملے میں کسی طرح کی کوتاہی کی گئی تو مستقبل میں یہ یہاں کی ریت بن جائے گی ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کے اہل خانہ نے پورا تعاون کرکے کیس کو آگے لے جانے میں مدد فراہم کی ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ایسے واقعات میں والدین اب خاموشی اختیار کرنے کے بجائے کیس کی تہہ تک پہنچنے میں پولیس کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔ پہلے ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا تھا ۔ ایسے کیس عموماََ سامنا لانا غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن اب حالت بدل رہے ہیں اور اہل خانہ پولیس کاروائی کو ضروری سمجھ رہے ہیں ۔ اب یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ ایسے کیسوں کے حوالے سے مضبوط شواہد اور دلائل جمع کرکے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائیں ۔ ممکن ہے کہ مقتول کی لاپرواہی یا غلطی بھی شامل رہی ہو ۔ تاہم اس بات کو قتل کا جواز نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ قتل بہرحال قتل ہے اور قانون کی نظر میں قاتل سزا کا مستحق ہے ۔ قاتل کو اپنے انجام تک پہنچانا بہت ضروری ہے ۔ بلکہ سزا میں دیری سماج پر اچھے اثرات ڈالنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ اس حوالے سے صحیح راستہ اپنانا ضروری ہے ۔
