ماہ رمضان کے مقدس مہینے کے دوران دکانداروں کو چاہئے تھا کہ صارفین کے ساتھ بڑے انصاف سے کام لیتے ۔ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ بڑے دنوں اور مقدس ایام کے دوران خریداروں کو قیمتوں میں چھوٹ دی جاتی ہے ۔ باقی دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ لوگ ایسے موقعوں سے بہت حد تک فیض یاب ہوتے ہیں ۔ مغربی دنیا میں کرسمس کے موقعے پر بڑے پیمانے پر خریداری ہوتی ہے ۔ تاجر اور دکاندار پہلے ہی اعلان کرتے ہیں کہ کرسمس کے موقعے پر کی جانے والی خریداری پر قیمتوں میں چھوٹ دی جائے گی ۔ اس وجہ سے صارف اس موقعے کا انتظار کرتے ہیں اور ضرورت کی زیادہ اشیا کرسمس کے موقعے پر خریدنا پسند کرتے ہیں ۔ اس کا فائدہ دونوں تاجر اور خریدار کو ہوتا ہے ۔ دکاندار کی بکری بڑھ جاتی ہے اور اس کی آمدنی میں اضافہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح خریدار کو بھی اطمینان ہوتا ہے کہ اسے قیمتوں میں کمی سے راحت مل گئی ۔ اسی طرح دوسرے متبرک ایام کے حوالے سے بھی خریداروں کو چھوٹ دی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ موبائل فون ، گارمنٹس ، ڈبہ بند خوراک اور ایسی ہی اشیا تیار کرنے والی کمپنیاں کچھ خاص موقعوں پر اپنی اشیا کی قیمتوں میں کافی کمی کرتی ہیں ۔ سال کے آخر یا شروع کے دنوں میں کلیرنس سیل اور نیو ایرسیل کے حوالے سے کافی راحت فراہم کی جاتی ہے ۔ سرما کے حوالے سے کمبلوں اور گرم ملبوسات پر چھوٹ ملتی ہے ۔ بلکہ کچھ خاص موقعوں پر سونے اور دوسرے زیورات کی قیمتیں کم کی جاتی ہیں ۔ اس کے بجائے رمضان کے موقعے پر صورتحال بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ دوسرے بہت سے مسلم شہروں میں بھی اس طرح کی ٹرینڈ پائی جاتی ہے ۔ ایسے بڑے شہروں میں لوگوں کو سحری اور افطار کے لئے قیمتی گفٹ پیک مفت میں دئے جاتے ہیں ۔ لیکن ہمارے اپنے کشمیر میں سب کچھ الٹا ہوتا ہے ۔ یہاں ایسے موقعے کا فائدہ خریداروں کو نہیں بلکہ دکاندار بڑے پیمانے پر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ماہ رمضان شروع ہوتے ہی دیکھا گیا کہ کھجوروں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ۔ بلکہ ضرورت کی آڑ میں غیر معیاری کھجوروں کے مارکیٹ میں انبار لگادئے گئے ۔ لوگ بھی بغیر کسی چھان بین اور بھائو تائو کے یہ چیزیں خریدتے ہیں ۔ کوئی صارف کریدنے کی کوشش کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے ٹوکا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس حوالے سے بڑے محتاط ہیں اور کسی قسم کی بحث وتکرار سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کھجوروں کے ساتھ ساتھ میووں ، گوشت، دودھ اور دوسری ایسی ایشیا میں جن کی رمضان کے دوران کھپت بڑھ جاتی ہے قیمتیں حد سے بڑھادی گئی ہیں اور ناقص مال بازار میں نظر آتا ہے ۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے ۔
بازاروں میں گراں بازاری اور لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے یہ بات بڑی عجیب ہے کہ لوٹنے والا بھی روزہ دار ہے اور جو لٹ جاتا ہے وہ بھی روزے سے ہے ۔ روزہ دار کے ہاتھوں روزہ دار کو لوٹنا بہت ہی معیوب بات ہے ۔ کشمیر یوں میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ ماہ رمضان کو انہوں نے کھانے پینے کا مہینہ بنادیا ہے ۔ اس مہینے کے دوران یہاں کے لوگ مشروبات اور کھانے پینے کا بڑا ہی اہتمام کرتے ہیں ۔ گھروں میں شاہی دستر خوان سجتے ہیں جن پر قسم قسم کے کھانے پروئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح مسجدوں اور گلی کوچوں میں افطاری کا بڑے پر لطف طریقے سے اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ایک ایسے مہینے کو جو پرہیزگاری اور فاقہ کشی کا مہینہ ہے اب عیش و طرب کا مہینہ بن گیا ہے ۔ اس وجہ سے نئے اور نرالی اشیا خریدنا پڑتی ہیں ۔ تاجر لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور من مانی قیمتوں پر ایسی اشیا فروخت کرتے ہیں ۔ یہ ماہ رمضان سے پہلے بھی کیا جاتا ہے ۔ اس کا جتنا نقصان خریدار کو ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ دکاندار کو ہوتا ہے ۔ خریدار کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی ذریعے سے جان جاتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ۔ وہ دوبارہ ایسے دکاندار کے پاس جانا پسند نہیں کرتا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ آن لائن شاپنگ پسند کرتے ہیں ۔ وہاں ریٹ کے حوالے سے اطمینان ہے ۔ کوئی چور بازاری نہیں ہے ۔ آن لائن شاپنگ کا سب سے زیادہ برا اثر سرینگر کے دکانداروں پر پڑا ۔ وہ یہ سمجھتے نہیں کہ اس کا سبب وہ خود ہیں ۔ صارفین کے حقوق کی پاسداری کرنا دکاندار اپنی کسر شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے گاہکوں کو مایوس کیا اور وہ آن لائن شاپنگ پر مجبور ہوگئے ۔ یہ صحیح ہے کہ اب ایسی شاپنگ زمانے کا رواج بن گیا ہے ۔ اس سے بچا نہیں جاسکتا ۔ نئی نسل کے نوجوان دوکان پر جانا پسند نہیں کرتے ۔ وہاں دکاندار کے ساتھ بحث کرنا انہیں آتا نہیں ۔ خاص کر لڑکیوں اور عورتوں کے لئے بھائو کے حوالے سے دکاندار کے ساتھ گفت و شنید کا تصور نہیں ۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے وہ آن لائن شاپنگ کو فوقیت دیتے ہیں ۔ اب کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ابھی آن لائن موڈ پر موجود نہیں ۔ میوے اس طریقے سے شاید حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ اسی طرح کھجور اور دوسری ایسی اشیا آن لائن موڈ کے بجائے دیکھ پرکھ کر خریدی جاتی ہیں ۔ بہت جلد لوگ ان چیزوں کو دکانوں کے بجائے آمیزان اور ایسے ہی دوسرے سپلائروں سے خریدنے لگیں گے ۔ جب ماہ رمضان میں اتنے بڑے پیمانے پر استحصال کیا جائے گا ۔ تو سمجھا جاسکتا ہے کہ باقی سال کے دوران کیا کچھ حالت ہوگی ۔ ایسی بری حالت سے بچنے کے لئے لوگ دکانداروں سے پناہ مانگ کر جدید ذرایع سے خریداری کرنا پسند کرتے ہیں ۔ سرکار نے ایسی شکایات موصول ہونے کے بعد مارکٹ چیکنگ میں تیزی لائی ہے ۔ اس چیکنگ کے دوران معلوم ہوا کہ بڑے پیمانے پر خراب اور گئی گزری اشیا فروخت کی جاتی ہیں ۔ قیمت بڑھانا تو الگ بات ہے ۔ تباہ اور صحت کے لئے مضر اشیا کو بھی دھوکہ دے کر فروخت کیا جاتا ہے ۔ ایسی دھوکہ دہی ، گراں بازاری اور استحصال کو روکنا بہت مشکل ہے ۔
