ملک کے صدر محترمہ دروپدی مرمو نے بینکوں کو ہدایت دی ہے کہ اثاثوں میں اضافے کے ساتھ صارفین کی جمع پونجی کی حفاظت کرنی چاہئے ۔ اقتصادی ترقی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اثاثوں میں اضافے کے علاوہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ صارفین بینک کے پاس جو روپے جمع کرتے ہیں وہ محفوظ بنائے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے لئے ان دو بنیادی باتوں میں توازن بنائے رکھنا بہت ضروری ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کا توازن کسی وجہ سے قائم نہ رکھا گیا تو نہ صرف معاشی ترقی رک جائے گی بلکہ ملک میں معیشت کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگا ۔ کلکتہ میں ایک بینک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے اسے بینکوں کی پہلی ذمہ داری قرار دیا کہ لوگوں کے جمع سرمایہ کی حفاظت ممکن بنائی جائے ۔ انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ وبائی صورتحال کے دوران لین دین کو ممکن بنانے میں کئی بینک اسکیموں نے بڑی مدد فراہم کی ۔ انہوں نے اب لوگوں کے سرمایہ اور بینک اثاثوں میں توازن قائم کرنے پر زور دیا ۔
پچھلے کچھ سالوں کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بینک اپنے شش ماہی اور سالانہ گوشواروں میں بڑے پیمانے پر ترقی دکھاتے ہیں ۔ اس سے عوام مطمئن ہیں کہ ان کا سرمایہ ڈوبنے سے بچایا جائے گا ۔ تاہم اس بات پر عوام میں تشویش پائی جاتی ہے کہ بعض مسائل کی وجہ سے ان کے جمع روپے کو خطرہ لاحق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں کے دوران لوگ اپنے پیسے بینکوں میں جمع رکھنے کے بجائے اراضی خریدنے یا زیورات کی صورت میں بچت کرتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں زمین کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگی ہیں ۔ بلکہ حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ جتنا پیسہ اراضی خریدنے یا زیورات بنانے پر خرچ کیا جاتا ہے یہی رقم بینکوں میں جمع رہے تو کئی ضرورت مند اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے کئی ایسے فراڈ سامنے آئے کہ صارفین کی مرضی کے بغیر ہی کچھ لوگ ان کے بینک کھاتوں سے رقم نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ ایسے کئی لوگوں کو پولیس نے دھر لیا ۔ تاہم یہ سلسلہ روکا نہیں جاسکا ۔ بلکہ اس طرح کے واقعات برابر پیش آرہے ہیں ۔ پولیس کی کوشش رہتی ہے کہ صارف ایسے دھوکہ بازوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی چالوں میں نہ آئیں ۔ اس کے باجود ایسی وارداتیں مسلسل پیش آرہی ہیں ۔ آن لائن بینکنگ نے جہاں صارفین کے لئے بہت سی سہولیات فراہم کیں وہاں ایسے مسائل بھی سامنے آئے جنکی وجہ سے بینکوں میں موجود کھاتہ کبھی بھی خالی ہوسکتا ہے ۔ سائبر فراڈ کے مختلف طریقوں سے پیسے نکالنے کے خطرات نے بینکوں کے حوالے سے لوگوں میں تشویش بڑھادی ہے ۔ اس دوران بینکوں کا رول تسلی بخش نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں بینک خود کو ذمہ دار نہیں مانتے ۔ بینک اہلکاروں کا ماننا ہے کہ ایسے مافیا کو روکنا ان کے بس کی بات نہیں ۔ ایسی صورت میں ایک صارف بے بس ہوکر رہ جاتا ہے ۔ بینک جمع پیسوں کی حفاظت کی ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو لوگوں کے لئے سخت مایوسی کا باعث بن رہاہے ۔ ادھر کئی ایسے واقعات پیش آئے کہ اے ٹی ایم کارڈ لے کر لوگوں نے دوسروں کے کھاتوں سے پیسے نکالے ۔ اسی طرح کئی طرح کی فون ایپلی کیشنز کو ڈاون لوڈ کرنے کی مدد سے کئی صارفین کو دھوکہ دے کر ان سے پیسے حاصل کئے گئے ۔ لوگ اپنے طور کوشش کرتے ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں ۔ لیکن کبھی بڑے زیرک اور چالاک لوگ بھی اس طرح کے فراڈی لوگوں کی چالوں میں آجاتے ہیں ۔ بینک کھاتوں کو محفوظ بنانے کے لئے صارفین سے کچھ تفصیلات مانگی جاتی ہیں ۔ پھر ان ہی تفصیلات کا سہارا لے کر کھاتوں سے جمع رقوم نکالی جاتی ہے ۔ یہ بڑا مشکل ہے کہ ایسی چالوں سے ہر وقت ہوشیار رہا جائے ۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ بینک والے کوائف طلب کررہے ہیں اور صارف کنگال ہوکر رہ جاتا ہے ۔ اسی طرح آدھار کارڈ کو لے کر ایسے فراڈ کئے جاتے ہیں ۔ مختلف کارڈ جو سرکار کی ہدایت پر ہی تیار کئے جاتے ہیں صارف کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں ۔ اس دوران صدر جمہوریہ نے عوامی دلچسپی کا ایک اہم مسائل اٹھایا ہے ۔ ان کا اپنا تعلق بینکنگ کے کاروباری خاندان سے ہے ۔ اس وجہ سے ان کے لئے بینک کاری کے مسائل سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پہلی بار بینک حکام کو ایک حساس اور عوامی بہبود کے مسئلے کی طرف توجہ دلائی ۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور صارفین کے لئے ذہنی تنائو کا باعث بنا ہوا ہے ۔ اس دوران یہ سمجھنا کہ بینک میں پیسے محفوظ نہیں ہیں کوفت کا باعث بن رہا ہے ۔ جب بینک کھاتوں میں جمع رقوم محفوظ نہیں تو پھر خون پسینے کی کمائی کی حفاظت کیسے کی جاسکتی ہے ۔ بینک کوئی گارنٹی دینے کو تیار نہیں ۔ حالانکہ اس کی سخت ضرورت ہے ۔ امید ہے کہ صدر جمہوریہ کی نصیحت کے بعد اس حوالے سے اقدامات کئے جائیں گے ۔
