سرکاری اہلکاروں نے کشمیر کے طول وعرض میں مارکیٹ چیکنگ میں تیزی لائی ہے ۔ اس دوران مختلف علاقوں کے تحصیلداروں اور دوسرے حکام نے از خود بازاروں کے چکر لگاکر تحقیقات کی ۔ انہیں معلوم ہوا کہ دکاندار بڑے پیمانے پر خریداروں سے دھوکہ دہی کرکے انہیں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ بعض تاجر مقرر ہ تاریخ سے گئی گزری اشیا اب بھی فروخت کرتے ہیں ۔ اسی طرح سڑی گلی چیزیں بھی کھلے عام بھیجی جاتی ہیں ۔ ان اشیا کو وقت پر ہی ضایع کیا گیا ۔ اشیائے خوردنی سے متعلق دکانداروں کو ہدایت کی گئی کہ معیار کو ہر حال میں مدنظر رکھا جائے ۔اس دوران دھوکہ دہی سے کام لینے والے دکانداروں سے کئی ہزار روپے بطور جرمانہ وصول کئے گئے ۔یہ دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ عام شہریوں اور گاہکوں کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے حکام نے مارکیٹ چیکنگ میں تیزی لائی ۔ لوگوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ اس سے کئی علاقوں میں بازاروں کو عوام دوست بنانے میں مدد ملی ہے ۔
ماہ صیام کے دوران عام طور پر بازاروں میں بڑا رش رہتا ہے ۔ بڑے پیمانے پر خرید و فروخت کی جاتی ہے ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے بازاروں میں عام طور پر پسماندہ اور درمیانی درجے کے لوگ خریداری کرنے آتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی پہنچ بہت ہی محدود ہوتی ہے ۔ انہیں ضرورت کی اشیا کی مقررہ قیمت معلوم ہوتی ہے نہ دکانداروں سے قیمتوں کے متعلق بحث کرنے کی جرات ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دکاندار زیادہ تر ایسے خریداروں کا بڑے پیمانے پر استحصال کرتے ہیں ۔ اونچے طبقوں کے لوگ بڑی بڑی دکانوں سے خریداری کرتے ہیں ۔ ایسے شاپنگ مالز میں قیمتیں مقرر ہوتی ہیں اور بھائو تائو کی کم گنجائش ہوتی ہے ۔ اس کے بجائے غریب لوگ پٹریوں پر سجی دکانوں یا عام دکانداروں سے خریداری کرتے ہیں ۔ یہاں کوئی نرخ نامہ ہوتا ہے نہ اس حوالے سے پوچھ گچھ کا موقع دیا جاتا ہے ۔ دکاندار مرضی کا مالک ہوتا ہے اور گاہک کو بات کرنے کا کم موقع دیا جاتا ہے ۔ ایسی جگہوں سے خریداری کرنے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جاکر شکایت کی جائے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ بہت کم گاہکوں کے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سرکاری اہلکاروں نے از خود بازاروں کے گشت لگانے شروع کئے ۔ اس دوران بڑے پیمانے پر اشیا کی قیمتوں کے متعلق استفسار کے علاوہ اشیا کی معیار برقرار رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے ۔ پہلی بار متعلقہ حکام دکانداروں کا پاس ولحاظ کرنے کے بجائے انہیں حق و انصاف کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ اس طرح سے قانون بحال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ، معلوم نہیں ۔ تاہم فی الوقت اس سے کافی سہولت میسر آئی ہے ۔ عوام کافی عرصے سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بازاروں میں کئے جانے والے ظلم کو روکا جائے ۔ لیکن اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ بلکہ الٹا تاجروں کے مفادات کی ہی پاسداری کی گئی ۔ سیاسی حکومتوں کے لئے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ بازاروں کا مواخذہ کریں ۔ الیکشنوں کے حوالے سے بازاروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ کسی کی ہار جیت کا فیصلہ بازار والے ہی کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی کارکن بازاروں میں کام کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے گاہکوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں ۔ آج ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے سرکاری اہلکاروں پر کوئی خاص دبائو نہیں ہے ۔ بلکہ یہ اہلکارو چاہئیں تو عام شہریوں کی مفادات کی حفاظت کرکے نام کماسکتے ہیں ۔ جن علاقوں میں حکام ایسے کرتے ہیں انہیں ہر حلقے سے شاباشی ملتی ہے ۔ یہ اب سرکاری حکام کی صوابدید اور قابلیت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اختیارات عوام کے لئے استعمال کرتے ہیں یا حسب روایت استحصالی عناصر کے آلہ کار بنتے ہیں ۔ کئی جگہوں سے اطلاع ہے کہ تحصیلدار ، میونسپلٹی حکام ، محکمہ فوڈ کے اہلکار اور دوسرے کئی آفیسر اس حوالے سے کافی متحرک ہیں ۔ وہاں کے بازار نیا روپ اختیار کررہے ہیں جو عوام کے لئے اطمینان کا باعث بن رہے ہیں ۔ اس سے عوامی حلقوں میں کافی خوشی محسوس کی جارہی ہے ۔ بازاروں میں قیمتیں بحال رکھنا ان حکام کی ذمہ داری ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری نرخناموں کا کہیں بھی اطلاق نظر نہیں آتا ہے ۔ یہاں تک کہ منڈیوں میں بھی من مانی کی جاتی ہے ۔ اس وجہ سے عام شہریوںتک جو اشیا پہنچ جاتی ہیں قابل استعمال ہوتی ہیں نہ ان کی قیمتیں صحیح ہوتی ہیں ۔ اس دوران عوام سخت بے بس نظر آتے ہیں ۔ حکومت کی کوشش ہے کہ عام لوگوں کو ان مصائب سے نجات دلائی جائے لیکن بہت سے حلقے ہیں جو ایسے نہیں ہونے دیتے ۔ ایسے لوگوں سے سختی سے پیش آنا ضروری ہے ۔ جب ہی مظلوم عوام کی داد رسی ہوسکتی ہے ۔ سرکاری اہلکاروں کی مصلحت پسندی آڑے آتی ہے اور اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ۔ تاہم پچھلے کچھ ہفتوں سے معلوم ہورہاہے کہ بعض علاقوں میں عام شہریوں کے مفادات کی پاسداری ہورہی ہے ۔
