عید منانے کا موقع سال میں صرف دو بار ملتا ہے ۔ دونوں عیدیں مختصر وقفے سے منائی جاتی ہیں ۔ عید الفطر کے صرف دو ڈھائی مہینے بعد عید الاضحی منائی جاتی ہے ۔ یہ دو دن ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو آتے ہیں ۔ یہی دو موقعے مسلمانوں کے لئے کسی حد تک خوشی اور مسرت کے موقعے ہیں ۔ ان دو دنوں کی آمد کا مسلمان بڑی بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ۔ بچے بوڑھے ، عورتیں اور دوسرے تمام لوگ ان دو دنوں کو پورے اہتمام سے منانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ ایک مہینے کی لگاتار روزہ داری کے بعد عید الفطر منائی جاتی ہے ۔ جبکہ عید الاضحی کے موقعے پر قربانی کی جاتی ہے ۔ عید کے دونوں موقعوں پر اصل تیاری عید نماز کے لئے کی جاتی ہے ۔ صبح سے ہی عید گاہ یا نزدیکی مسجد میں نماز کے لئے جانے کی فکر لگ جاتی ہے ۔ اس غرض سے پوری طرح سے نہا دھوکر جانا اور مہیا ہوں تو نئے کپڑے پہن کر جانا سنت نبوی ہے ۔ بلکہ اس موقعے پر عطر چھڑکنے اور بالوں کو سنوارنے کا بھی حکم ہے ۔ عید کی جو سنتیں بتائی جاتی ہیں وہ بڑی نازک اور بابرکت سنتیں ہیں ۔ ان کا اہتمام کرنا ضروری مانا جاتا ہے ۔ ان سے یقینی طور خوشی اور قلبی طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان تمام خوشیوں پر اس وقت اوس پڑجاتی ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ صبح پو پھٹتے ہی عید نماز پڑھی جائے گی ۔ کچھ ہی سال پہلے کشمیر میں عید کی نماز دس ساڑھے دس بجے کے آس پاس پڑھی جاتی تھی ۔ لیکن جب سے دیوبندی اور وہابی علما کا اثر غالب ہوا صبح سویرے عید نماز پڑھی جانے لگی ۔ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ عید کی نماز پڑھی یا محض خانہ پری کے لئے صفوں میں کھڑا ہوگئے ۔ اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ آدمی ظاہری اور ذہنی طور عید نماز کے لئے تیار ہوجائے ۔ نہا دھوکر نئے یا کم از کم صاف دھلے ہوئے کپڑے پہن لے ۔ نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن کے ساتھ انسان مشغول ہوتا ہے ۔ ادھر عید کی نماز کا وقت آن پہنچتا ہے ۔ بلکہ بیشتر لوگ بڑی مشکل سے عید کی نماز میں شامل ہوپاتے ہیں ۔ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوتا ہے سمجھنا مشکل ہے ۔ پہلے جب دن چڑھ کر نماز عید ادا کی جاتی تھی تو ننھے منے بچے نئے ملبوسات پہن کر عید گاہ آتے تھے تو لگتا تھا کہ مسلمانوں اک تہوار ہے ۔ آج جب دھوڑ کر عید گاہ پہنچنا پڑتا ہے تو نماز عید اور نماز جنازہ میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتی ۔ معلوم نہیں کہ مولوی کس کو خوش کرنے کے لئے اتنا سویرے عید نماز پڑھتے ہیں ۔ اہلحدیث مسلک کے لوگ ویسے ہر نماز اول وقت میں ہی پڑھتے ہیں ۔ کچھ وقت سے حنفی اور دیوبندیوں نے بھی ان کی تقلید کرنا شروع کی ۔ یہ نئی اور بڑی پیش رفت ہے جس نے عید کی خوشیوں کو بڑھانے کے بجائے پوری طرح سے پامال کیا ۔ اس دوران متفقہ طور نماز کے لئے مناسب وقت مقرر کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے ۔ایک ہی مسلک کے مولوی باہم اشتراک کرنے کو تیار نہیں ۔
افسوس کی بات ہے کہ عید نماز کے موقعے پر بھی کوئی اسلام اور مسلمانوں کا مفاد کومدنظر رکھنے کے لئے تیار نہیں ۔ مولویوں کے لئے مسلکی شناخت اور ذاتی نمائش سب سے مقدم ہے ۔ مسلمانوں کے اندر جو نااتفاقی پائی جاتی ہے وہ کلی طور علما کی وجہ سے ہے ۔ عام مسلمانوں کا اس میں سرے سے کوئی رول نہیں ہے ۔ انہیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مسلک کو ترک کرکے ان کی نماز درست ہے نہ دوسری عبادات اللہ کو قبول ہیں ۔ مسلکی تنازعوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور ہر ٹکڑے کو ہی اصل اسلام قرار دیا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں مولوی کسی بھی حد کو جانے کو تیار ہیں ۔ اسلام کو کس قدر بھی زک پہنچایا جائے ۔ اسلامی شریعت کو سرے سے بدل دیا جائے ۔ مسلمانوں کے مفادات یا خود مسلمانوں کو تہس نہس کیا جائے ۔ مولویوں کو اس سے کسی قسم کا فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں ان کے ذاتی مفادات کو معمولی آنچ آجائے تو یہ سیخ پا ہوجاتے ہیں ۔ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کو سر کٹانے کے لئے بھی پیش کرتے ہیں ۔ ان ہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں اور مدرسوں نے اسلام اور مسلمانوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک ہی جگہ اورمناسب وقت پر عید کی نماز ادا کرنے پر یہ لوگ آمادہ نہیں ۔ سحری کے اختتام اور افطاری کے لئے مشترکہ کلینڈر تو شایع کرتے ہیں ۔ لیکن عید کی نماز کے لئے ایک ہی مکان اور زمان پر آمادہ نہیں ۔ ایک عام اور سادہ لوح مسلمان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اکٹھے نماز پڑھنے سے اسلام کا بڑا مفاد جڑا ہے ۔ایسے وقت پر نماز ادا کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ شامل ہوپائیں تو اسلام کو فائدہ اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ ہوسکتا ہے ۔ لیکن اس سے بہت سے خود غرض مولویوں کے مفادات کو زک پہنچ سکتی ہے ۔ انہیں عید نماز کے موقعے پر چیخنے چلانے کا موقع ملے گا نہ اپنی جیبیں بھرنے کا بہانہ ہاتھ آئے گا ۔ مسلمانوں کی کسمپرسی کے اس زمانے میں اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو بڑھاوا دیاجائے ۔ انہیں ایک جگہ اکٹھے کرکے وہاں وقت کی ضرورت سمجھائی جائے ۔ انہیں ملی مفاد اور اجتماعی مسائل کے حل کے حوالے سے باخبر کیا جائے ۔ اس ذریعے سے مسلمانوں کے لئے کوئی مشترکہ قیادت ابھاری جاسکتی ہے ۔ یہی چیز مولویوں کو منظور نہیں ۔ ہمارے مولوی ہرگز نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے اندر مشترکہ مفادات کے لئے شعور پیدا ہوجائے۔ نااتفاقی اور باہمی جھگڑوں کے لئے امریکہ اور اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔ لیکن اصل نااتفاقی مولویوں کی پیدا کردہ ہے ۔ اس میں کون سی بات آڑے آرہی ہے کہ کسی علاقے کے مسلمان ایک ہی جگہ اور اور ایسے وقت پر نماز ادا کریں جو سب کے لئے مناسب ہو ۔گھر سے اطمینان سے نکلا جائے ۔ بچوں کو اپنے ہمراہ لیا جائے اور اطمینان قلب کے ساتھ نماز میں شمولیت کی جائے ۔ لیکن کسی کو ی پسند نہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ صبح سات بجے ہی نماز کا صحیح وقت ہے ۔ کوئی ساڑھے سات اور کوئی آٹھ بجے شرعی ٹائم قرار دیتا ہے ۔ مقصد اپنے آقائوں کو خوش کرنا ہے ۔ کسی کو دیوبندی طبقہ فکر کی مضبوطی اس میں مضمر نظر آتی ہے ۔ کوئی عرب کلچر کو فروغ دینے پر تلا ہوا ہے ۔ اس طرح سے ایک بار پھر مسلمانوں کی اجتماعیت میں رخنے ڈالے جاتے ہیں ۔ اپنے ذاتی مفاد کے لئے عید نماز کا ٹائم مقرر کرنے سے سرے سے کوئی نماز قبول ہی نہیں ہوتی ہے ۔ سب کچھ فضول ہے ۔
