اتوار 30 اپریل کو وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے نشریاتی پروگرام من کی بات کا سواں ایڈیشن پیش کیا ۔ اس طرح سے پروگرام کی سنچری مکمل ہوگئی ۔ اپنی نوعیت کے ا یک سویں پروگرام کو ملک اور ملک سے باہر کئی جگہوں پر بڑے جوش وخروش کے ساتھ سنا گیا ۔ وزراعظم نے خود اس پروگرام کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا ۔ ان کے علاوہ سرکار اور حکمران پارٹی بی جے پی کے لیڈروں کی طرف سے اس پروگرام کو سراہا گیا ۔ مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے اس پروگرام کے حوالے سے اپنے تاثرات میں اس پروگرام کو تواریخی ریڈیو پروگرام قرار دیا ۔ دوسرے بہت سے رہنمائوں نے اس پروگرام کو کامیاب پروگرام قرار دیتے ہوئے عوام اور ملک کے لئے بہت ہی فائدہ مند پروگرام قرار دیا ۔ من کی بات کے اس 100 ویں پروگرام کو ملک کے طول وعرض میں سنا گیا ۔ خاص طور سے بی جے پی کارکنوں نے اس پروگرام کے انعقاد کے لئے خصوصی مجالس کا اہتمام کیا تھا ۔ اسکولوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں بھی اس پروگرام کو سننے کے لئے خاص نشستوں کا انعقاد کیا گیا ۔
من کی بات پروگرام کو جب شروع کیا گیا تھا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ پروگرام اتنا طویل ہوجائے گا ۔ وزیراعظم کی مصروفیات کو دیکھ کر خیال کیا جاتا تھا کہ چند قسطوں سے آگے نہیں جائے گا ۔ دوسری طرف ریڈیو کے بہت کم استعمال کو دیکھ کر بھی اندازہ تھا کہ لوگ زیادہ عرصے کے لئے اس کے ساتھ نہیں جڑیں گے ۔ لیکن یہ تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور پروگرام اپنی سنچری مکمل کرنے میں کامیاب رہا ۔ وزیراعظم نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنا ایک کامیاب پروگرام قرار دیا ۔ بلکہ انہوں نے اسے اپنا طویل روحانی سفر قرار دیا ۔ یاد رہے کہ یہ مبینہ طور ایک غیر سیاسی پروگرام ہے جس میں وزیراعظم عوام کے ساتھ ملک میں ہورہی منفرد سرگرمیوں کو شیئر کرتے ہیں ۔ وزیراعظم نے پروگرام میں کئی بار کشمیر کا ذکر کیا جو ایک حوصلہ افزا بات قرار دی جاتی ہے ۔ پروگرام میں پلوامہ کے پنسل بنانے والے ملک کے سب سے بڑے کارخانے کا ذکر کیا گیا ۔ اس سے پہلے پلوامہ کو لیتھ پورہ حملے کے تعلق سے جانا جاتا تھا ۔ لیکن وزیراعظم نے ملک کے عوام کے سامنے صاف کیا کہ علاقے میں صرف دہشت گردانہ سرگرمیاں ہی نہیں پائی جاتی ہیں ۔ بلکہ ضلعے میں پنسل بنانے والا ملک کا سب سے بڑا کارخانہ بھی پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے اپنے اس پروگرام میں کشمیر میں سیاحتی سرگرمیوں اور دلچسپیوں کا بھی ذکر کیا ۔ انہوں نے ملک کے شہریوں کو کشمیر آکر یہاں کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کا مشورہ دیا ۔ ایک ایسے مرحلے پر جبکہ کشمیر میں دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد غیر یقینی صورتحال پائی جاتی تھی وزیراعظم نے لوگوں کو کشمیر آنے کے لئے کہا ۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی جس کا بڑا اثر دیکھا گیا اور سیاح بڑی تعداد میں کشمیر آنے لگے ۔ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ سرکار خاص طور سے وزیراعظم ملک کے باشندوں کی کشمیر آمد چاہتے ہیں ۔ اس طرح سے کشمیر میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ ملا اور ماحول سازگار بنانے میں مدد ملی ۔ من کی بات پروگرام میں ملک کے اندر پائے جانے والے ٹیلنٹ کا ذکر کیا گیا اور کئی ایسے کم سن طلبہ کو آگے آنے کا موقع ملا جو بصورت دیگر سامنے آنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے ۔ اس طرح سے گم نامی کی زندگی گزارنے والے کئی سو ہنرمند لوگوں کو متعارف ہونے میں مدد ملی ۔ وزیراعظم کے اس پروگرام سے بہت سے لوگوں کو حوصلہ ملا اور انہوں نے اپنی صلاحتوں کا مظاہرہ کیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانے میں بھی باصلاحیت افراد کو اسٹیج فراہم کرکے ان کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ ان تمام سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ من کی بات کے سویں ایڈیشن کو ایک ہزار سے زیادہ پلیٹ فارموں سے نشر کیا گیا ۔ ایسا پہلا موقع ہے کہ اس پروگرام کو اقوام متحدہ کے ہیڈکواٹر سے براہ راست نشر کیا گیا ۔ برطانیہ میں ہندوستان کے سفیر نے اس پروگرام کو براہ راست سننے کا انتظام کیا تھا اور سفیر نے از خود یہ پروگرام سنا ۔ پروگرام کی میزبانی وزیراعظم کی طرف سے کی جاتی ہے ۔ تاہم ملک کے عوام کا ایک بڑا حصہ پروگرام سے جڑا رہتا ہے ۔ یہی پروگرام کی کامیابی کا راز ہے ۔ اس سے سماج کے مختلف طبقات کو سامنے آنے کا موقع ملا ۔ دوردراز کے لوگوں کو وزیراعظم کے ساتھ براہ راست بات کرنے کا موقع ملا ۔ اس پروگرام نے ملک کے تہذیب و تمدن کو اجاگر کرنے میں مدد فراہم کی ۔ اجڑے اور پسماندہ لوگوں کے کلچر کو ملک کے بہت سے طبقوں تک پہنچانے میں مدد دی ۔ اسی وجہ سے پروگرام کو عوام کی آواز قرار دیا جاتا ہے ۔ مخالف حلقے اس کی تنقید بھی کرتے ہیں اور اسے وزیراعظم کی پریس سے دوری کا بہانہ بتاتے ہیں ۔
