جموں کشمیر بینک نے پچھلے دنوں سرینگر کے مضافات میںایک اور برانچ کھول دی ۔ اس طرح سے سرینگر زون میں بینک شاخوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ بینک کی طرف سے سرینگر علاقے میں شاخوں کی سنچری مکمل کی گئی ۔ اس موقعے پر بینک حکام کی طرف سے کہا گیا کہ صارفین کا دبائو کم کرنے اور انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے شاخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ بینک کی طرف سے پچھلے کئی سالوں سے جگہ جگہ شاخیں کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دور دراز علاقوں میں شاخیں کھول کر لوگوں کو بینک سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔ بینک کی طرف سے قائم کئے گئے مراکز کی وجہ سے لوگ بڑے پیمانے پر بینک سہولیات سے متعارف ہورہے ہیں ۔ شاید ہی کوئی ایسا شہری ہوگا جس کے نام پر بینک اکائونٹ موجود نہ ہو ۔ ایک زمانے میں بینک کے ساتھ لین دین صرف ساہوکاروں کا حق سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن جموں کشمیر بینک نے عام شہریوں اور پسماندہ طبقوں کو بینک اسکیموں کے ساتھ جوڑ کر ایک اہم کام انجام دیا ۔ اس حوالے سے سرکار کی طرف سے بھی ایسی پالیسی اختیار کی گئی کہ لوگوں کی بینکوں تک پہنچ ضروری بن گئی ۔ سرکاری ا سکیموں کا فائدہ عام شہریوں تک پہنچانے میں بینکوں نے بڑا اہم رول ادا کیا ۔ جموں کشمیر بینک کی طرف سے اس حوالے سے بڑا اہم رول رہا ۔ تاہم یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جگہ جگہ شاخیں خھولنے کے باوجود صارفین کو اطمینان بخش سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہے ۔ کئی لوگوں کا الزام ہے کہ بینک میں جاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتے ہیں اور بینک ملازمین کا ان کے ساتھ رویہ دوستانہ ہونے کے بجائے بڑا ہی جارحانہ ہوتا ہے ۔ یہ بڑی مایوس کن بات ہے کہ کئی معاملات میں بینک منفی رول ادا کرتے ہیں ۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ بینک کی شاخوں میں مسلسل اضافہ کافی نہیں ۔ بلکہ بہتر کسٹمر سروس انتہائی اہم ہے ۔
پچھلی ایک دہائی کے دوران جموں کشمیر بینک میں جو لوگ بھرتی ہوئے ان میں سے اکثر چور دروازوں سے لاکر یہاں بٹھادئے گئے ۔ چور دروازوں سے لائے گئے یہ ملازم بینک کے اصل کام سے بے خبر ہیں اور کسی طور صارفین کی خدمت کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔ خیال تھا کہ موجودہ انتظامیہ اس حوالے سے اقدام کرتے ہوئے بینک پر سوار کئے گئے ان افراد کو گھر کا راستہ دکھا جائے گا یا انہیں کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کہا جائے گا ۔ لیکن ایسا کچھ بھی سامنے نہیں آیا ۔ ان نکمے ملازمین کی دیکھادیکھی میں باصلاحیت افراد بھی کام چور بن گئے ہیں ۔ اس کا براہ راست اثر صارفین پر پڑتا ہے ۔ یہ ایسے بینک ملازموں کی خوش قسمتی ہے کہ آن لائن بینک سہولیات کو لوگ پسند کرنے لگے ہیں ۔ اس وجہ سے ملازموں پر کام کا دبائو بہت حد تک کم ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود اس بات پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے کہ بینک ملازمین معمولی سے معمولی مسئلہ حل کرنے میں تعاون نہیں کرتے ہیں ۔ یہ ملازم چونکہ بنیادی صلاحیتوں سے بے بہرہ ہیں ۔ اپنی کوششوں کے باوجود یہ صارفین کا کوئی مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ بینک ملازموں کی اس صورتحال سے صارفین سخت تنگ آچکے ہیں ۔افسوس اس بات کا ہے کہ بینک حکام اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔ بینک حکام کی کوشش رہتی ہے کہ باصلاحیت افراد کو مرکزی دفتر یا دوسری مصروف ترین شاخوں میں تعینات کیا جائے ۔ اس وجہ سے عدم توازن پیدا ہوتا ہے ۔ دوردراز کے علاقوں میں صارفین کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ لوگ ایسی بہت سی سرکاری اور بینک اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں جو دیہی علاقوں یا پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے بنائی گئی ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ بینک ملازمین خود ان اسکیموں سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے ۔ جب وہ خود لاعلم ہیں تو صارفین کی مدد کیسے کرسکتے ہیں ۔ اس وجہ سے سرکاری اسکیمیں ناکام ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ انتظامیہ کی طرف سے گرام سبھا اور دوسرے ایسے ہی عوامی پروگراموں میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ لوگ سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھائیں ۔ یہ لوگ بینک کی کسی شاخ میں جاکر ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بینک ملازمین سرے سے کوئی تعاون نہیں کرتے ۔ یہ ملازم اس حوالے سے کورے کے کورے ہیں ۔ یہ ایسی اسکیموں سے لاعلم ہیں ۔ لہذا کوئی تعاون کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ۔ اس دوران بینک حکام کی طرف سے یہ بات بڑے فخر سے کہی جاتی ہے کہ نئی شاخیں کھولی گئیں تاکہ صارفین کی بہتر خدمت کی جاسکے ۔ لیکن بینک ملازم اس دعوے پر پورا نہیں اترتے ۔ یہ سرے سے کوئی سہولیت بہم پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ۔ جو بینک کلرک کسی صارف کو بیلنس شیٹ فراہم نہ کرپائے وہ تنخواہ وصول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ ایسے ملازمین بینک پر ایسا بوجھ ہیں جس کے دبائو سے کسی بھی وقت بینک کی کشتی غرق آب ہوگی ۔ ایسے اداروں کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے ۔
