پوری دنیا کے ساتھ جموں کشمیر میں بھی ریڈ کراس ڈے کے موقعے پر تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ اس حوالے سے جموں کشمیر کے طول وعرض میں مختلف نوعیت کے اجلاس منعقد کئے گئے ۔ سرکاری اور غیر سرکاری حیثیت کی ان میٹنگوں میں کئی حلقوں نے شرکت کی ۔ اس موقعے پر ریڈکراس کی طرف سے عالمی سطح پر کئے گئے کام کی سراہانا کی گئی ۔ ریڈ کراس تنظیم دنیا بھر میں جنگی صورتحال سے متاثرہ عوام کی خدمت میں مصروف ہے ۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ بغیر کسی تفریق کے متاثرہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جنگ سے براہ راست متاثر علاقوں کے علاوہ تنظیم کے کارکنوں کی کوشش رہتی ہے کہ دہشت گردی اور دوسرے ایسے ہی وجوہات سے تنائو کے شکار لوگوں کی مدد کی جائے ۔ اس حوالے سے تنظیم کی کارکردگی بہت ہی متاثر کن قرار دی جاتی ہے ۔ اس تنظیم کی مدد سے بہت سے لوگوں کو حالات پر قابو پانے اور اپنی زندگی از سر نو منظم کرنے میں مدد ملی ۔ یہ واحد تنظیم ہے جس کی طرف سے کئی ایسے لوگوں کی بحالی کا کام ممکن ہوسکا جن کی کسی دوسرے اداروں سے مدد ممکن نہ ہوسکی ۔ بلکہ اس دوران تنظیم نے جیلوں میں بند ایسے قیدیوں سے رابطہ کیا جن کی حالت سے ان کے عزیز و اقارب بے خبر تھے ۔ اسی طرح گم شدہ سمجھے گئے لوگوں کوم نظر عام پر لانے اور موت وحیات سے دوچار بہت سے افراد کی صحت بحال کرنے میں مدد فراہم کی گئی ۔ مہاجرین کی باز آباد کاری کے علاوہ بیماروں کے لئے خون کی فراہمی کا انتظام کیا گیا ۔ ایسے علاقوں میں جاکر جہاں گن گرج کی وجہ سے رابطہ کرنا ممکن نہ تھا ریڈ کراس کارکنوں نے اس کام کو ممکن بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کو وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔
8 مئی کو عالمی سطح پر ریڈکراس ڈے حسب روایت تنظیم کے بانی سربراہ سر جین ہنری ڈننٹ کے یوم پیدائش کے حوالے سے منایا گیا ۔ امسال اس دن کے لئے ’ہر چیز جو ہم دل سے کرتے ہیں ‘ بطور سلوگن مقرر کیا گیا تھا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تنظیم اپنے کاز میں کس قدر مخلص رہنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ریڈکراس کے کام سے متاثر ہوکر کئی دوسرے اداروں نے بھی حاجت مند عوام کی مدد کرنے کی کوشش کی ۔ ان تنظیموں کی طرف سے عوام تک پہنچنے کی واقعی بہتر کوشش کی گئی ۔ اس کے باوجود یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ریڈ کراس کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی وہ تاحال کسی اور تنظیم کے لئے ممکن نہ ہوسکی ۔ ریڈ کراس محض کوئی ادارہ نہیں بلکہ ایک مشن ہے ۔ ریڈکراس کو ایک مخصوص طبقے کی تنظیم سمجھا جاتا ہے ۔ حق بھی یہی ہے کہ مخصوص ممالک اور خاص علاقوں کے لوگ اس تنظیم کی مالی معاونت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تنظیم نے بغیر کسی نظریاتی تفریق کے عوام کے بڑے طبقے تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ اس دوران تنظیم کے کارکن کئی حلقوں کی طرف سے دبائو کے شکار رہے بلکہ کئی افراد کو جان کی بازی کھیلنا پڑی ۔ کئی علاقوں میں رسائی حاصل کرنے کے لئے جان خطرے میں ڈالنا پڑا ۔ اس کے باوجود ان کارکنوں نے لوگوں کو مایوس نہ کیا ۔ کشمیر میں شورش کے دوران اس تنظیم کی طرف سے کام سامنے آیا ۔ اگرچہ یہ کام بڑا محدود رہا اور وسیع سطح پر سرگرمیاں سامنے نہ آئیں ۔ اس دوران جو دوسرے فلاحی ادارے یہاں کام کرتے رہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی مدد سے زیادہ اپنی مدد کرتے رہے ۔ بہت سے ایسے اداروں اور کارکنوں کے خلاف غبن اور فراڈ کے الزامات لگائے جاتے ہیں ۔ سرکار کی طرف سے ایسے اداروں کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے ۔ اس سے صرف نظر کرنے کے باوجود یہ بات مسترد نہیں کی جاسکتی ہے کہ ان کا کام شفاف نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار ان سے ناراض اور عوام غیر مطمئن ہیں ۔ ایسے ادارے غیر جانبداری سے کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے ۔ یہ ادارے مبینہ طور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ ریڈکراس کے بارے میں بھی کئی بار کہا گیا ہے کہ دوہرا معیار اپنا یا جاتا ہے ۔ اس کے خلاف بھی شکایتوں کے انبار لگائے گئے ۔ اس کے باوجود تنظیم نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور ہر جگہ پہنچنے کی کوشش کی ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جنگ عظیم سے لے کر آج تک اس کی سرگرمیاں جاری ہیں اور بہت سے علاقوں میں اس کے کارکن آج بھی عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس ادارے کی پہنچ دنیا کے ہر خطے اور ہر فرد تک ہے ۔ اس کے کام کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے ۔ ایسا کام اس تنظیم کے بغیر کسی اور کے ہاتھوں ممکن نہیں ۔ کشمیر میں اس تنظیم کی سرگرمیاں زیادہ نمایاں نہیں ۔ ریڈ کراس ٹکٹ طلبہ میں فروخت کرنے اور کئی سو متاثرین کی لگاتار امداد کے علاوہ اس کی سرگرمیاں محدود ہیں ۔ علامتی طور خون کے عطیے کے کیمپ منعقد کئے جاتے ہیں ۔ باقی ایسی کوئی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں جن سے یہاں کے عام شہری فائدہ حاصل کرپاتے ۔ یہ صحیح ہے کہ ادارے کی طرف سے اپنے کام کا چرچا ہوتا ہے نہ مدد حاصل کرنے والے شکر گزار پائے گئے ہیں ۔ تاہم ریڈکراس کی سرگرمیاں پسماندہ طبقوں تک پہنچ جائیں تو یقینی طور اس کی پذیرائی ہوگی ۔ اس کے باوجود تنظیم کے کام کو سراہانا اور حوصلہ افزائی کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
