لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے سرینگر میں جی ٹونٹی کے انعقاد کو تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ اس کی کامیابی میں اپنا رول ادا کریں ۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے ایسی عالمی کانفرنس کے انعقاد کو کشمیر کے لئے ایک فائدہ بخش ایونٹ بتایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے کشمیر عالمی سیاحتی نقشے پر ابھر سکتا ہے اور اس صنعت کو بڑا فائدہ ملنے کا امکان ہے ۔ انہوں نے کسی خطے کے اندر اس طرح کی عالمی کانفرنس کا انعقاد وہاں کے عوام کے لئے خوش قسمتی کا باعث قرار دیا ۔ سرکاری حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بین الاقوامی سطح کی کانفرنس میں مندوبین کی شرکت سے کشمیر اعلیٰ بلندیوں تک پہنچ جائے گا ۔ کانفرنس کے سیاسی مضمرات سے قطع نظر ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں کو یہاں آنے پر راغب کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ سیاحتی صنعت کو فروغ ملنے کی امید بھی ظاہر کی جارہی ہے ۔ نوجوانوں کی اس حوالے سے سرگرمیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے ملک اور بیرون ملک روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں گے ۔ اس طرح سے یقین دلایا جارہاہے کہ عالمی کانفرنس کا انعقاد محج کوئی سرکاری ایونٹ نہیں بلکہ ایک عوامی اجلاس ہوگا جس میں عوام کی شرکت لازمی ہے ۔ تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ عالمی سطح پر بننے والے نئے ماحول کے اندر ان کے لئے ترقی کے کیسے مواقع ہیں ۔
جموں کشمیر کی پوری انتظامیہ G20 اجلاس کے انعقاد میں مصروف ہے ۔ ہوائی اڈے سے لے کر جلسہ گاہ تک پورے شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے ۔ سیکورٹی ا یجنسیوں نے مبینہ طور فقیدالمثال انتظامات کئے ہیں ۔ پچھلے کئی روز سے تمام تر ایجنسیاں اسی کام میں لگی ہوئی ہیں ۔ زمینی اور ہوائی سطح کے سیکورٹی انتظامات کے علاوہ نیوی کو بھی اس کام میں لگایا گیا ہے ۔ سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ انتظامات کو حتمی شکل دی گئی ۔ لالچوک کے علاوہ دوسرے کئی علاقوں کو جھنڈیوں سے سجایا گیا ہے ۔ اس سے پہلے مہمانوں کے لئے تمام گزرگاہیں از سر نو تعمیر کی گئیں ۔ اس طرح سے کئی علاقوں کو از سر نو تعمیر و ترقی دے کر بڑا جازب نظر بنایا گیا ۔ شہریوں نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ پہلی بار سرینگر شہر کو ممبئی اور دہلی کی پوش کالنیوں کے ہم پلہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اس دوران عوام کے نام سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے ہدایات جاری کی گئیں ۔ ان ہدایات میں خاص طور سے بیرون ملک سے آنے والی ٹیلی فون کالوں سے اجتناب کرنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سیکوتٰ کو فول پروف بنانے کے تمام انتظامات مکمل کئے گئے ہیں ۔ اس طرح سے عالمی کانفرنس کو اطمینان بخش انداز میں منعقد کرنے کے تمام انتظامات کئے جاچکے ہیں ۔ اس کانفرنس کو کشمیر کے حق میں ایک سنہری موقع قرار دیا جاتا ہے ۔ 2019 میں کشمیر کے حوالے سے ٹریول ایڈوائزری اجرا کی گئی تھی ۔ اس کے تحت مشورہ دیا گیا تھا کہ کشمیر آنے کے دوران ا حتیاط سے کام لیا جانا چاہئے ۔ خاص کر یورپی اور خلیجی ممالک کو یہاں آنے سے اجتناب کرنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔ بلکہ اس موقعے پر جو غیر کشمیری یہاں موجود تھے انہیں فوری طور کشمیر چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ اس ایڈوائزری وک اگرچہ بعد میں بے اثر سمجھا گیا ۔ تاہم عالمی سطح پر اس کے اثرات تاحال موجود بتائے جاتے ہیں ۔ اب عالمی کانفرنس کے سرینگر میں انعقاد کے بعد اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس چار سال پرانی ایڈوائزری کے اثرات ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔ کہا جاتا ہے کہ تجارت سے وابستہ حلقوں کے لئے عالمی سطح پر تجارت کے مواقع تلاش کرنے میں مدد ملے گی ۔ ایل جی نے پہلے ہی سیاحتی اور کاروباری حلقوں سے صلح مشورہ کرکے انہیں یقین دلایا کہ ان کے تحفظات کا خیال رکھا جائے گا ۔ یہ بات صحیح ہے کہ ایسے موقعوں پر بڑی بڑی کمپنیوں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ۔ کشمیر میں ایسے کاروباری حلقے نہیں پائے جاتے جو عالمی سطح کی کمپنیوں کے ساتھ لین دین کرنے کے لائق ہیں ۔ ان میں اتنی توانائی ہے نہ سرمایہ پایا جاتا ہے کہ یہ عالمی شہرت کی مالک کمپنیوں کے ساتھ رابطہ بڑھانے کی کوشش کریں ۔ تاہم دہلی سرکار اس کام میں مدد دینے پر آمادہ ہوجائے تو کوئی بھی کام مشکل نہیں ۔ اس سے پہلے کئی افراد نے سرکار اور بینکوں سے قرضہ لے کر ایسی شہرت حاصل کی کہ دنیا کے بڑے بڑے کاروباری حلقوں میں ان کا نام لیا جانے لگا ۔ جی ٹونٹی سے اس طرح کی امداد حاصل ہونے کا امکان ہے ۔ سرکار کی کوشش ہے کہ اس ایونٹ کو سیاحتی میدان میں آگے بڑھنے میں مددگار بنایا جائے ۔ یہ کام ہوجائے تو اس کا فائدہ صرف کشمیر سیاحت کو ہی نہیں بلکہ کئی دوسری کمپنیوں کو بھی مل سکتا ہے ۔ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوجائے تو بیرون ملک کے کئی نامور حلقے یہاں اپنا کاروبار جمانے کی کوشش کریں گے ۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مقامی آبادی کو کسی حد تک مدد ضرور ملے گی ۔ اس دوران یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ کشمیر کے عوام کو خاص طور سے اس عالمی کانفرنس کا بڑا فائدہ ملے گا ۔ ایسے فوائد راتوں رات نہیں بلکہ اس کے دوررس نتائج ہوتے ہیں جس کے لئے سخت محنت کے علاوہ کچھ مدت کے لئے انتظار بھی کرنا ہوتا ہے ۔
