ڈائریکٹر امور صارفین کا کہنا ہے کہ راشن کی کمی کا مسئلہ بہت جلد حل کیا جائے گا ۔ اس حوالے سے امید دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاملہ آخری مرحلے میں ہے اور بہت جلد صارفین کو خوش خبری سنائی جائے گی ۔متعلقہ آفیسر کا کہنا ہے کہ مسئلہ پہلے ہی مرکزی سرکار کے ساتھ اٹھایا گیا ہے جہاں سے مثبت اشارے ملے ہیں ۔ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ بہت جلد حتمی فیصلہ لیا جائے گا ۔ ڈائریکٹر امور صارفین نے غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کرنے والے کنبوں کی ماہانہ راشن سپلائی میں اضافہ کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ خوراک کے معاملے ایسے پسماندہ کنبوں کو پریشان نہیں کیا جائے گا جو کھلے مارکیٹ سے راشن حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ غزائی اجناس کی فراہمی میں راحت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور بہت جلد انہیں مشکلات سے نجات دلائی جائے گی ۔ اس سلسلے میں جلد ہی اعلان کی توقع کی جارہی ہے ۔ اس حوالے سے تفصیل ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ بی پی ایل زمرے کے تحت آنے والے کنبوں کی راشن فراہمی کا مسئلہ زیر غور ہے اور حتمی فیصلہ عنقریب ہی متوقع ہے ۔
جموں کشمیر کے عوام اس وجہ سے سخت پریشان ہیں کہ سرکار کی طرف سے چاول کی فراہمی میں کٹوتی کی جارہی ہے ۔ بلکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ راشن گھاٹوں سے چاول کی سپلائی بند کی جارہی اور صرف غریبی کی ریکھا سے نیچے گزر بسر کرنے والوں کو ہی چاول فراہم کئے جائیں گے ۔ ایسے غریب کنبوں کو شکایت کہ انہیں بھی ضرورت کے مطابق چاول فراہم نہیں کئے جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق راشن کی سپلائی میں مسلسل کٹوتی کی وجہ سے کنبوں کو ان کی ضرورت کے مطابق چاول فراہم نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ فی کنبہ محض چند کلو فراہم کئے جاتے ہیں جو ان کی ضرورت سے بہت کم ہوتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ راشن گھاٹوں کو الاٹ کیا جانے والا چاول کا کوٹا ڈیمانڈ کے مطابق نہیں ہوتا ہے ۔ سرکاری حلقوں کی طرف سے اگرچہ اس معاملے میں مکمل خاموشی پائی جاتی ہے اور کوئی واضح پالیسی نہیں ہے ۔ ا سوجہ سے عام لوگ سخت پریشان بتائے جاتے ہیں ۔ وادی کشمیر میں پچھلے کئی سالوں سے چاول کی کاشت میں مسلسل کمی لائی جارہی ہے ۔ زیر کاشت زمین کو دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے ۔ اس معاملے میں سرکار نے بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی زمین دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر قانونی پابندی ختم کی ہے ۔ زمین مالکان کو اجازت دی گئی کہ وہ ایسی اراضی کو کسی بھی دوسرے مقصد سے استعمال میں لاسکتے ہیں ۔ یہ قانون عملی طور پہلے ہی کمزور کیا گیا تھا اور زمیندار قانون کو بالائے طاق رکھ کر تعمیرات کھڑا کرنے یا باغات بنانے کے استعمال میں لاتے تھے ۔ اس وجہ سے کاشتکاری کے لئے استعمال کی جانے والی اراضی کا حجم آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا ۔ جب سے اس حوالے سے قانون میں نرمی لائی گئی لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کے دوسرے استعمال میں تیزی لائی ۔ یہ رفتار ایسے ہی جاری رہی تو بہت جلد ایسی زمین کا خاتمہ ہوگا ۔ سرکار کی خواہش ہے کہ دوسرے لوگ ایسی زمینوں کو کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال میں لائیں تاکہ آمدنی میں اضافہ ہوجائے ۔ یہ بات پہلے ہی واضح ہوچکی ہے کہ کسانوں کے لئے اب چاول اور دوسرے فصلوں کی کاشت گھاٹے کا سودا بن گیا ۔ ان فصلوں کی کاشت پر جتنا خرچہ آتا ہے منافع تو درکنار اصل زر بھی حاصل نہیں ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں نے ایسی اراضی دوسرے مقاصد کے لئے استعمال میں لائی ۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ایسا کرکے آمدنی میں اضافہ ہوا نہ غزائی اجناس کی فراہمی آسان ہوگئی ۔ سرکاری راشن گھاٹوں سے کم قیمت اور سبسڈی پر ملنے والے راشن نے کام بہت حد تک آسان بنایا تھا ۔ لوگ بڑی آسانی سے غذائی اجناس خرید پاتے تھے ۔ لیکن اب جیسا کہ کہا جاتا ہے سرکار نے اس پالیسی میں تبدیلی لائی ہے ۔حکومت چاہتی ہے کہ چاول کی کاشت کرنے والے اپنی فصل کھلے مارکیٹ میں فروخت کریں تاکہ انہیں معقول قیمت مل سکے ۔ لیکن ایسا ہونا دکھائی نہیں دیتا ۔ کسان پہلے ہی یہ دکھڈا لے کر بیٹھے ہیں کہ ان کی فصلوں کو جان بوجھ کر معقول قیمت فراہم نہیں کی جاتی ۔ اس صورتحال کے اندر کسان اور صارف دونوں مایوس نظر آتے ہیں ۔ وادی کشمیر میں صورتحال کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ یہاں پچھلے ستھر سالوں سے چاول سرکاری راشن گھاٹوں سے فراہم ہوتی رہی ۔ لوگ کہیں اور سے ایسی اجناس خریدنے کے لئے تیار نہیں ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ سبسڈی دینے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے قائم نہیں رکھا جاسکتا ۔ اس وجہ سے خزانہ عامرہ پر بلا وجہ بوجھ ڈالی جاتی ہے ۔ تاہم لوگ ایسی پالیسی کو قابل قبول نہیں سمجھتے ۔ لوگ پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار ہیں ۔ اب غذائی اجناس کی سپلائی میں کٹوتی کی وجہ سے ایسے مسائل میں اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ۔
