تحریر:نثار گنائی
یہ جان کر آپ کو بے حد خوشی ہوگی کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں معذور یعنی خصوصی افراد بھی عام لوگوں کے شانہ بشانہ تعلیم کی منازل طے کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ بہت سے اعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ انہوں نے عدلیہ اور سول سروسز جیسے مشکل میدانوں میں بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ مگر یہ صرف چند شہری علاقوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہندوستان کی لگ بھگ 65 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے تہذیب و تمدن و رسم ورواج کے مطابق زندگی بسر کر تے ہیں۔ مگر آزادی کے 75 سال گزر جانے کے بعد بھی دیہی علاقوں کی ترقیاتی حالت جوں کی توں ہے۔ جیسے رابطہ سڑک کی عدم دستیابی، پینے کے صاف پانی کی قِلت،اسکولوں میں اساتذہ اکرام کی کمی، ہیلتھ سینٹر کا نہ ہونا،حاملہ خواتین اورمعذوریعنی خصوصی افراد کے لیے طبی سہولیات کی کمی، بجلی کی خستہ حالت، ایمرجنسی سروس کی عدم دستیابی وغیرہ جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ ان تمام تر سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے معذور افراد کی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اسکولوں میں معذور بچوں کے لئے ضروری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں جیسے بریل سسٹم کا نہ ہونا، بصارت سے محروم افراد کے لئے آواز میں ریکارڈ کی گئی معلومات کا نہ ہونا اور اس کے علاوہ دیگر کئی رکاوٹیں ہیں جو کہ معذور افراد کی خود مختارانہ، آزادانہ زندگی کو درپیش ہیں۔
اس کے برعکس اگر شہری علاقوں کی بات کی جائے تو وہاں غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں خصوصی افراد کی پڑھائی کے لئے بہتر انتظامات کیے گئے ہیں جہاں طلبہ کی ڈس ایبلٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص قسم کی تعلیم دی جاتی ہے مگر ایسے غیر سرکاری اداروں میں صرف سرمایہ دار طبقہ کے والدین ہی اپنے معذور بچوں کو بھیج سکتے ہیں۔ آج ترقی پذیر ممالک میں inclusive education کا نظام رائج ہے جہاں معذور بچوں کے لیے علیحدہ تعلیمی اداروں کے بجائے،انھیں بھی سرکاری روایتی تعلیمی اداروں میں نارمل بچوں کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمارا ملک دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جن میں معذور افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ درحقیقت معذور افراد معاشرے کے معذور افراد نہیں ہوتے بلکہ انہیں ہمارے رویئے ڈس ایبل کر دیتے ہیں۔معذوری کی حالت میں اگر گھر یلو اور سماج کا ماحول اچھا مل جائے تو انسان بیماری سے مقابلہ کرلیتا ہے اگر ماحول اس کے برعکس ہو تو پھر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور جسمانی معذوری کے ساتھ ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یعنی پھر جسمانی اور ذہنی دونوں قسم کی معذوری سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں آڑائی سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ رضیہ کی ہے۔ وہ بتاتی ہے”میرے ساتھ بچپن میں ایک حادثہ پیش آیا تھا جس سے میں شدید زخمی ہوگئی تھیں۔ گھریلو حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے اپنا علاج ومعالجہ کسی اچھے ہسپتال میں نہ کروا سکی اور آخر کار جسمانی طور پر معذور بن کر رہ گئی۔ تب مجھے اپنی زندگی کے مقاصد کو ان خوابوں میں بدلنا پڑا جن خوابوں کی تعبیر ہی نہیں ہوتی مگر حوصلے میرے پست نہ تھے۔ مایوسی کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔ بھائیوں نے مالی وسائل کی کمی کے باوجود بھی میری زندگی میں مایوسی نہیں آنے دی۔ اپنی زندگی کے ہر نشیب وفراز میں معذور بہن کا سہارا بنے رہے۔ مگر چار سال قبل بڑے بھائی کی اچانک موت کے بعد میں بے سہارا ہوکر رہ گئی۔“ انہوں نے مزید بتایا کہ آج کے دور میں جہاں مہنگائی، بھوک و افلاس اور انتہائی شدید قسم کے غذائی بحرانوں نے جموں وکشمیر میں خوفناک صورتحال سے عوام کو دوچار کر دیا ہے۔ وہی معذور افراد کے لیے گزر بسر کرنا زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔
تحصیل منڈی کے دوردراز علاقہ چھمبر کناری کے سکونتی عبدل سبحان نامی نوجوان نے بتایا کہ ان کے دونوں پاؤں پیدائشی طور پر ٹیڑھے ہیں جو اندر کی جانب جُھکے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے گاؤں کے کٹھن راستوں پر پیدل چلنے پھرنے میں انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک اچھی نوکری حاصل کرنا چاہتے تھے مگر مالی وسائل کی کمی اور جسمانی معذوری کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ ساتھ ہی گاؤں آڑائی سے تعلق رکھنے والا ایک باشندہ سیف الدین جنکی عمر پچاس سال ہے،اُنہوں نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی قوتِ گویائی و قوتِ سماعت سے پیدائشی طور پر محروم ہیں۔حلانکہ قدرت نے انہیں عقلِ سلیم سے نوازا ہے۔ وہ ہر کام اس انداز سے کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بولنے اور سننے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود بھی ہلکی پھلکی مزدوری کرتے ہیں۔ مگر اس مہنگائی کے دور میں گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ مندرجہ بالا خصوصی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے دی جانے والی ایک ہزار روپے کی ماہانہ امداد کم ہے اس کو مزید بڑھایا جائے۔ شعبہ اردو سے تعلق رکھنے والے لیکچر افطار حسین نے بتایا کہ ضلع پونچھ کے ان دور دراز پہاڑی علاقوں میں کئی ایسے افراد ہیں جو مختلف معذوری کا شکار ہیں، جیسے قوتِ بصارت سے محرومی، بصارت کی کمی، بہرا پن، پاؤں کا ٹیڑا ہونا، ذہنی صلاحیت میں کمی، قوتِ گویائی سے محرومی اور حادثے میں کسی عضو کا ٹوٹ جانا وغیرہ ان تمام معذور افراد کو دنیا کی ہر پریشانی اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ تعلیمی، سیاسی و سماجی میدانوں میں پیچھے رہ جاتیں ہیں۔ حکومت کی جانب سے چلائی جا رہی اسکیمیں مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتی ہیں لیکن سرحدی ضلع پونچھ میں وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود بھی معذور مرد و خواتین اپنے ہنر کو بڑھاوا دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ جیسے کپڑوں کی سلائی، کڑھائی و دیگر دستکاری کرنا وغیرہ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جہاں خصوصی افراد کے لیے معذوری سرٹیفکیٹ ایک ایسی سرکاری دستاویز ہے جو معذور ہونے کی قانونی حیثیت کا تعین کرتی ہے اس کے کئی فوائد ہیں۔ مثلاً مالی امداد، تعلیمی اداروں کی فیسوں میں رعایت، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مخصوص کوٹہ پر ملازمتوں کا حصول مگر نہ جانے کیوں حکومت اس دستاویز کے لئے دوبارہ رجسٹریشن کروارہی ہے جس کے لیے متعلقہ محکمہ کے دفاتر کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں اور طویل قطاروں میں گھنٹوں لگنا پڑتا ہے۔ جو ان کے لئے کسی عزاب سے کم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ یوٹی جموں وکشمیر انتظامہ کی جانب سے معذور افراد خاص کر معذور خواتین کو خودکفیل بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے بہت ساری اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دیہی علاقوں کے معذوروں کو ان اسکیموں کا بہت زیادہ فائدہ نہیں مل پاتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے معذور افراد میں خواندگی کی شرح کم ہوتی ہے اور دوسرا کوئی اس کے بارے میں بتاتا ہی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال کے پیشِ نظر گاؤں سے تعلق رکھنے والے پنچ، سرپنچ و مقامی انتظامہ کا فرض ہے کہ وہ ان معذور افراد کی نشاندہی کر کے مرکزی و یوٹی حکومت کی اسکیم سے جوڑیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ معذور افراد کے لیے مزید سہولیات فراہم کریں۔انہیں کم شرح سود پر قرضے کی سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ کوئی کاروبار کرسکیں۔ پنچایتی نظام کی اسکیموں سے فائیدہ دلوایا جائے۔ گاؤں کے اسکولوں میں معذور بچوں کی تعلیم کے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ اسکول میں خصوصی بچوں کو سنبھالنے اور سمجھنے کے لیے تجربہ کار اور ماہر ہیلپر کے ساتھ ویل چیئر اور دیگر ضروریات زندگی کو یقینی بنایا جائے۔ بچوں کو فن اور کرافٹ، ڈریس ڈیزائننگ، کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ جیسی پیشہ ورانہ تعلیم دی جائے تاکہ آنے والے وقت میں انہیں بے روزگاری سے بچایا جا سکے۔(چرخہ فیچرس)
