وکست بھارت سنکلپ یاترا کا آغاز وزیراعظم نے 15 نومبر کو کیا تھا ۔ یاترا کسی کی بھی توقعات سے زیادہ کامیاب رہی ۔ اس یاترا کو صحیح طور تبدیلی کی یاترا قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کا مقصد ملک کے عوام کو سرکار کی طرف سے شروع کی گئی اسکیموں سے جانکاری فراہم کرنا ہے ۔ عوام کو یہ بتانا مقصود ہے کہ انہیں اپنے کام کروانے کے لئے دفتروں کے چکر نہیں لگانے ہیں بلکہ مودی کی قیادت میں قائم سرکار نے انہیں دہلیز پر تمام سہولیات فراہم کرنا یقینی بنایا ہے ۔ اس طرح سے عوام کو بااختیار بنانے کا خواب پورا ہوگا ۔ جھارکھنڈ سے شروع کی گئی اس یاترا نے اب تک کے سفر کے دوران 2.60 کروڑ عوام کو سرکار کے پروگراموں سے باخبر کراکے ان کے خیالات موقعے پر ہی سنے ۔ یہ آزاد بھارت کی اب تک کی ایسی سب سے بڑی یاترا ہے جس نے گرام سبھا سطح پر لوگوں تک سرکاری پروگرام پہنچائے ۔ سرکار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ عوامی مفاد کی جو اسکیمیں اب تک شروع کی گئی ہیں ملک کے 100فیصد عوام ان سے فائدہ حاصل کرپائیں ۔ اس کے لئے تمام سرکاری اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ۔ سرکاری اہلکار بھی پوری تن دہی سے اس عوامی رابطہ مہم کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ وزیراعظم نے بذات خود ایسے کئی سو شہریوں سے بات چیت کی جنہوں نے وکست بھارت سنکلپ یاترا سے کسی طرح سے استفادہ کیا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی اس یاترا کے ساتھ کس قدر دلچسپی ہے ۔
جموں کشمیر میں بھی بھارت سنکلپ یاترا کے ساتھ لوگوں نے کافی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ یہاں یاترا کا شروع میں زیادہ فوکس دیہاتوں پر رہا جہاں مبینہ طور نوے فیصد کے لگ بھگ لوگوں کو اس حوالے سے جانکاری فراہم کی گئی ۔ اس کے بعد شہروں کی طرف رخ کیا گیا تو اطلاعات کے مطابق وہاں بھی شہریوں کی دلچسپی دیکھنے کے لائق تھی ۔ یاترا کو یوم جمہوریہ تک جاری رکھنے کا پروگرام ہے اور ٹارگٹ یہی ہے کہ پوری کی پوری آبادی کو اس حوالے سے باخبر کیا جائے ۔ تاکہ سرکاری اسکیموں کا فائدہ ہر خواہش مند اور ضرورت مند کو حاصل ہوجائے ۔ اس سے یقینی طور غریب لوگوں کو فائدہ ہوگا ۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ سرکار پیسے بچاکر اپنے عیش و عشرت پر خرچ کرنے سے پرہیز کررہی ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سرکار عام لوگوں پر پیسے خرچ کرنے سے زیادہ خود پر خرچ کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پہلی بار دیکھا گیا کہ سرکار لوگوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ آگے آکر حکومتی پالیسیوں کا فائدہ اٹھائیں ۔ بلکہ کئی طبقوں کو مجبور کیا جارہاہے کہ وہ اپنا حق حاصل کریں اور امدادی رقوم سرکاری اہلکاروں کے لئے چھوڑنے کے بجائے اس کو حاصل کریں ۔ سماجی بہبود کے محکمے کے آفیسروں سے اس بات پر جواب طلب کیا جاتا ہے کہ مخصوص کی گئی امدادی رقم کیونکر بچ گئی ۔ یہ ثابت ہونے پر کہ کوئی مجبور شخص ایسی امدادی رقم حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے تو متعلقہ اہلکاروں کی تنبیہ کی جاتی ہے ۔ اسی طرح اسکولوں میں زیر تعلیم ہر طالب علم تک اس کا اسکالر شپ پہنچانے کی ذمہ داری اساتذہ پر ڈالی گئی ہے ۔ پورا سال اساتذہ پر زور ڈالا جاتا ہے کہ طلبہ کو اسکالر شپ پورٹل پر اندراج کیا جائے تاکہ ان کے بینک کھاتے میں یہ رقم پہنچ جائے ۔ اس سے پہلے درجنوں زونل آفیسر اس رقم کی ہیرا پھیری کرتے پکڑے گئے ۔ رقم حاصل کرکے دفتروں کے کلرک ساری رقم ہڑپ کر جاتے تھے ۔ آج ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایسا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ۔ بھارت سنکلپ یاترا سے لوگ مزید ہوشیار ہوگئے ہیں ۔ انہیں جانکاری مل گئی کہ وہ ایسی اسکیموں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ ایک پسماندہ ملک کے اندر لوگوں کو ایسی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ پسماندہ طبقوں کے لوگ کسی سرکاری دفتر میں جانے اور جاکر وہاں منہ کھولنے سے گھبرا جاتے ہیں ۔ ان میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ اپنے حق کو تلاش کریں اور کسی چیز کو حق جان کر حاصل کریں ۔ ایسے لوگ دفتروں میں جاکر بھیک مانگنے کے انداز میں اپنا حق طلب کرتے ہیں ۔ سرکاری اہلکار بھی ان کا کام کرنا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے ۔ بلکہ ان پر احسان کرنے کے انداز میں ان سے بات کرتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ ایسی صورتحال بدل رہی ہے ۔ سرکاری کام کاج میں دھیرے دھیرے بدلائو آرہاہے ۔ وہ آفیسر اور اہلکار جو دفتر میں سائل سے بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔ سرکار نے ان اعلیٰ عہدیداروں کو لوگوں کے پاس جاکر انہیں ان کی دہلیز پر حق پہنچانے کا مکلف بنایا ۔ اب گائوں گائوں بلکہ محلہ محلہ جاکر یہ عہدیداروں لوگوں سے ملتے ہیں ۔ ان سے جاکر ان کی منت سماجت کرتے ہیں اور نرمی سے پیش آکر ان کے مسائل حل کرتے ہیں ۔ اگرچہ کئی سرکاری ملازم اب بھی ایسا کرنے کو تیار نہیں اور انتظامیہ کو کوستے رہتے ہیں ۔ ان کے خیال میں غریبوں خاص کر دیہی عورتوں کو طاقتور بنانے کی سرکاری پالیسی ان کے شایان شان نہیں ۔ لیکن عوام بیدار ہوکر ان کے گریبان پکڑنے کی جرات کرنے لگے ہیں ۔ بھارت سنکلپ یاترا جیسے پروگراموں سے یقینی طور یہاں کا سرکاری نظام عوام دوست بنے گا ۔ اس سے لوگوں کے اندر بیداری پیدا ہوگی اور لوگ زیادہ سے زیادہ سرکار کے نزدیک آئیں گے ۔ لوگ اس وجہ سے اپنے اور اپنی حکومت پر فخر کررہے ہیں ۔
