شدید سردی اور مسلسل خشک سالی کی وجہ سے لوگوں کو کئی طرح کی بیماریوں کا سامنا ہے ۔ خاص طور سے بچوں اور معمر افراد کو کھانسی ، دمہ اور زکام کے مسائل کا سامنا ہے ۔ اس حوالے سے اگرچہ زیادہ فکر مندی نہیں پائی جاتی ہے ۔ تاہم طبی سہولیات میں کمی کی وجہ سے لوگ سخت پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔ سرکار نے پچھلے سال کے دوران طبی مراکز کو اپ گریڈ کرنے اور بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کے لئے نمایاں کام کیا ۔ ہسپتال عمارات تعمیر کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ۔ دور دراز علاقوں کو بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کے لئے بھاری رقوم خرچ کئے گئے ۔ لیکن ان طبی مراکز کے اندر طبی عملہ تعینات کرانے کی طرف تاحال توجہ نہیں دی گئی ۔ لوگ ان طبی مراکز پر آکر مایوسی کا شکار ہوتے ہیں ۔ طبی عملہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو بغیر طبی سہولیات بہم آئے واپس لوٹنا پڑتا ہے اور پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اتنی شاندار عمارات تعمیر کرنے کے باجود یہاں طبی عملہ اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔ بارھمولہ کے دوردراز علاقے سے مریضوں نے شکایت کی پبلک ہیلتھ سنٹر موجود ہونے کے باوجود وہاں طبی عملہ موجود نہیں ہے ۔ اس وجہ سے مریضوں کو دس دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے ۔ پھر انہیں ڈاکٹر سے ملاقات نصیب ہوتی ہے ۔ پچھلے دنوں ترال میں سنکلپ بھارت کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں موجود ڈپٹی کمشنر کے سامنے انکشاف کیا گیا کہ کئی ہزار آبادی والے علاقے میں طبی سہولیات کا شدید فقدان ہے ۔ درجنوں افراد وہاں سے تنخواہ وصول تو کرتے ہیں لیکن کام کہیں اور کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے وہاں موجود ہسپتال بے کار ہوکر رہ گیا ہے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ میڈیکل آفیسروں خاص کر بی ایم او اور سی ایم او جیسے حکام نے بلا وجہ طبی عملے کو کئی ہسپتالوں سے اٹھاکر اپنی مرضی کی جگہوں پر تعینات کررکھا ہے ۔اس وجہ سے مریضوں کو اپنے نزدیکی ہسپتالوں میں طبی سہولیات میسر نہیں آرہی ہیں ۔
علاج معالجے کا مسئلہ کشمیر میں ایک دیرینہ مسئلہ ہے ۔ اس سے پہلے تعلیم کا بھی ایسا ہی مسئلہ پایا جاتا تھا ۔ سرکار نے کئی اسکیمیں سامنے لاکر ضرورت سے زیادہ تعداد میں اسکول کھولے ۔ اس سے لوگوں کو یہ کہنے کا موقعہ نہیں رہا کہ ان کے علاقے میں اسکول موجود نہیں ۔ بلکہ بستی تو کیا ایک ہی محلے میں دو دو چار چار اسکول پائے جاتے ہیں ۔ گھر گھر اسکول کھولنے کے بعد خیال تھا کہ طبی مراکز کا بھی جال بچھایا جائے گا ۔ حکومت نے اس غرض سے کئی اسکیمیں تو بنائیں ۔ لیکن ایسی اسکیمیں لوگوں کے لئے تسلی بخش ثابت نہیں ہوئیں ۔ اس دوران مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ کووڈ 19 کے زمانے میں اس کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا کہ بیشتر لوگوں کے لئے طبی مراکز نہیں پائے جاتے ہیں ۔ ہنگامی بنیادوں پر دور اور نزدیکی عارضی ہسپتال قائم کئے گئے ۔ بلکہ لاک ڈاون کی وجہ سے بند پڑی اسکولی اور دوسری سرکاری عمارات میں بھی اس طرح کے مراکز قائم کئے گئے ۔ لیکن کووڈ کے خاتمے کے ساتھ ہی ایسے تمام ہسپتالوں کو بند کیا گیا ۔ ان مراکز کو فراہم کیا گیا سامان کہاں غائب ہوا کسی کو معلوم نہیں ۔ ایسی تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے دیکھا جائے تو اس بات کی سخت ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ دوسری سہولیات کی طرح لوگوں کو ان کی دہلیز پر نہ سہی کم از کم گھر کے نزدیک علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ بیشتر ڈاکٹر اور دوسرے طبی کارکن گائوں دیہات میں کام کرنے پر آمادہ نہیں ۔ ایسے تمام سرکاری اہلکاروں کی خواہش ہے کہ انہیں شہروں میں کام کرنے کے لئے تعینات کیا جائے ۔ انہیں اتنی رقم بطور تنخواہ دی جاتی ہے کہ وہ شہر میں ہر سہولت اپنے اور اپنے عیال کے لئے فراہم کرپاتے ہیں ۔ ایسے تمام اہلکاروں نے اپنے بچوں کو شہر کے بڑے بڑے اسکولوں میں داخل کرایا ہے ۔ اپنے بچوں کو معیاری تعلیمی سہولیات بہم پہنچانے کے دوران انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ غریب عوام کا کیا بنتا ہے ۔ عام لوگ مریں یا جئیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔ انہیں اپنی اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہے ۔ شہر کے ہسپتالوں میں ضرورت سے زیادہ ڈاکٹر اور دوسرے طبی کارکن پائے جاتے ہیں ۔ یہ کارکن اس بات کی دہائی دیتے ہیں کہ ضرورت کے مطابق عملہ موجود نہیں ۔ اس طرح سے شور اٹھانے کا اصل مقصد اضافی عملہ کی فراہمی نہیں بلکہ اپنے لئے شہر کے ہسپتالوں میں گنجائش نکالنا ہوتا ہے ۔ شہر کے ہسپتالوں میں واقعی مریضوں کا رش ہوتا ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ گائوں کے مریض بھی شہر کے ہسپتالوں میں پہنچ جاتے اور وہاں علاج کرانا پسند کرتے ہیں ۔ یہ صورتحال اس وقت تک قائم رہے گی جب تک لوگوں کو ان کے نزدیکی ہسپتالوں میں طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں ۔ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ اس طرف توجہ دے ۔ سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ جو طبی کارکن خاص طور سے ڈاکٹر صاحبان جہاں سے تنخواہ لیتے ہیں انہیں وہیں پر کام کرنے کو کہا جائے ۔ موجودہ طبی نظام عوام کے لئے اطمینان بخش نہیں ہے ۔
