سرما کے آغاز میں ہی معلوم ہوا تھا کہ سرکار بجلی فیس میں اضافہ کررہی ہے ۔ ایک ایسے مرحلے پر جب وادی میں شدید سردی کے ساتھ بجلی کٹوتی میں اضافہ ہونے لگا تو عوام میں سخت بے چینی پائی گئی ۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ کشمیر انتظامیہ اس سال اضافی بجلی خریدنے سے اجتناب کررہی ہے ۔ کہا گیا کہ اتنی بڑی رقم کو بجلی کی خریداری پر ضایع کرنے کے بجائے فلاحی اسکیموں میں لگایا جائے گا ۔ سرکار کا خیال تھا کہ جتنی بجلی فیس وصول ہوتی ہے اسی کے حساب سے صارفین کو بجلی بھی فراہم کی جائے گی ۔ بعد میں سردی میں غیر معمولی اضافہ ہونے اور بجلی کٹوتی بڑھ جانے پر لیفٹنٹ گورنر کی ذاتی مداخلت کے بعد مرکز سے دو ہزار میگاواٹ بجلی در آمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ تاہم اس دوران یہ بھی کہا گیا کہ اضافی بجلی کے لئے معاوضہ صارفین کو ادا کرنا ہوگا ۔ اس وجہ سے بجلی فیس میں اضافے کی خبریں سامنے آنے لگیں ۔ خیال تھا کہ بجلی فیس میں اضافہ نئے سال سے ہوگا اور جنوری مہینے کی بجلی بلیں نئے ریٹ کے حساب سے بنائی جائیں گی ۔ لیکن بجلی محکمے نے بڑی پھرتی دکھاتے ہوئے سال رفتہ کے دسمبر مہینے کی بلیں نئی فیس ریٹ کے حساب سے فراہم کیں ۔ اس طرح سے صارفین وک نئے ریٹ کے تحت دسمبر کی بجلی فیس ادا کرنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی فراہمی میں کوئی معقولیت نہیں ہے ۔ بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے ۔ بجلی کٹوتی کے شیڈول کئی بار بدل دئے گئے اور کٹوتی میں اضافے کے ساتھ شیڈول بنائے جارہے ہیں ۔ دوسری طرف یک طرفہ طور بجلی فیس میں اضافہ کیا جارہاہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صارفین بجلی کا منصفانہ استعمال نہیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ منفی درجہ حرارت کے اندر رہنے والے لوگ بجلی اگریمنٹ کے مطابق خرچ کریں کسی طور ممکن نہیں ۔ لوگوں کو گرم پانی اور گرم کمروں کی ضرورت ہے ۔ جب ہی یہ زندہ رہ سکتے ہیں ۔ اس دوران انہیں ہیٹر ، گیزر اور گرمی بہم پہنچانے کے لئے دوسرے آلات کا استعمال کرنا لازمی ہے ۔ بجلی کی اس طرح سے کی جارہی چوری کو ان کا حق نہیں مانا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بجلی محکمے کے اہلکار بجلی چوری روکنے میں پوری طرح سے ناکام ہوگئے ہیں ۔ اس کا نزلہ عام صارفین پر نہیں گرایا جاسکتا ہے ۔ بجلی چوری سے ہونے والا خسارہ صارفین پر بجلی فیس میں اضافہ کرکے حاصل کیا جاتا ہے ۔ اس کو حقیقت پسندانہ اقدام قرار دیا جارہاہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ۔ یہ عام صارفین کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے ۔
پچھلے دنوں خبر سامنے آئی کہ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا مبینہ طور بجلی صورتحال کا از خود مشاہدہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے خود اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ ذاتی طور بجلی سپلائی کی نگرانی کررہے ہیں اور لوگوں کو معقول مقدار میں بجلی فراہم کرا رہے ہیں ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اتنی اعلیٰ سطح پر بجلی سپلائی کی نگرانی کی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود صارفین کو بڑے پیمانے پر بجلی کٹوتی کا سامنا ہے ۔ بعض علاقوں میں سولہ گھنٹے بجلی روکی جاتی ہے اور صرف آٹھ گھنٹوں کے لئے بجلی مہیا رکھی جاتی ہے ۔ اب ایسے علاقوں کے لئے بجلی فیس میں اضافہ کیا جارہاہے ۔ بجلی فیس میں اضافہ فلیٹ ریٹ کے تحت بجلی حاصل کرنے والے صارفین کے لئے کیا گیا ۔ یاد رہے کہ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں آبادی کا بڑا طبقہ غربت کی ریکھا کے نیچے زندگی گزاررہاہے ۔ ایسے غریب لوگوں کے بجلی فیس میں اضافہ ان کے لئے بار گراں ہے ۔ جمع تفریق کے حساب سے دیکھا جائے تو بجلی فیس میں اضافہ کوئی ناانصافی نہیں ۔ لوگ بے تحاشہ بجلی کا استعمال کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے سرے سے کوئی فیس وصول نہ کی جائے ۔ بلکہ بہت سے صارفین ایسے ہیں جو سرے سے کوئی فیس ادا نہیں کرتے ۔ بجلی اہلکاروں سے دوستی بناکر یا کچھ لے دے کے معاملہ طے کیا جاتا ہے ۔ ایسے صارفین سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی ۔ اس کے برعکس منصفانہ انداز میں بجلی استعمال کرنے والوں پر ہی مزید بوجھ ڈال کر ان سے اضافی بجلی کی قیمت وصول کی جارہی ہے ۔ کشمیر کے عوام مجموعی طور مفت بجلی استعمال کرنے کے عادی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی فیس میں معمولی اضافہ ان کے لئے بار گراں چابت ہوتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بجلی فیس کی عدم ادائیگی عام صارفین کی عادت نہیں بلکہ سرکاری محکمے بجلی فیس کی ادائیگی میں سب سے بڑے خائن ہیں ۔ ان محکموں سے بجلی فیس وصول کی جائے تو عام لوگوں کو کافی راحت مل سکتی ہے ۔ بجلی فیس کے حوالے سے محکمہ بجلی کی طرف سے منتخب علاقوں کو ٹارگٹ بناکر ان کی فیس میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ بجلی فیس میں اس طرح سے اضافہ مسلسل کیا جارہاہے ۔ پچھلے کئی سالوں سے محکمے کی عادت بن گئی ہے کہ اچانک ہی بجلی فیس میں اضافہ کرکے صارفین کو بلیں فراہم کی جاتی ہیں ۔ لوگ منہ بھی نہیں کھول پاتے ہیں ۔ محکمے کی طرف سے بجلی چوری کا رونا رویا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس طرح کی عادت محکمے کے کارکنوں نے ہی ڈالی ۔ محکمہ بجلی کے اہلکار اس میں معاون نہ بن جائیں تو بجلی چوری کو مکمل طور ختم کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس کے لئے دیانت دار کارکنوں کی ضرورت ہوگی جس کا ہمارے معاشرے میں سخت فقدان پایا جاتا ہے ۔
