پورے کشمیر میں ہوئی بارشوں اور برف باری سے لوگوں نے راحت کی سانس لی ۔ اس سے پہلے بھی برف باری ہوئی ۔ لیکن وہ اتنی کم مقدار میں ہوئی کہ کچھ دنوں کے اندر ہی صاف ہوگئی ۔ تاہم محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی کہ برف باری اور بارشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے ۔ پیش گوئی کے عین مطابق سوموار کو یہ سلسلہ شروع ہوا ۔ پہلے موسلا دھار بارشیں ہوئیں ۔ اس کے بعد برف آنی شروع ہوگئی ۔ دو دنوں کی لگاتار برف باری کا سلسلہ منگل کی شام کو رک گیا ۔ اس تازہ ترین برف باری سے لوگوں کو سخت راحت محسوس ہورہی ہے ۔ امید کی جارہی ہے کہ چلہ کلان کے دوران سخت خشک موسم کا تازہ برف باری سے ازالہ ہوجائے گا ۔ کئی سیاحتی مقامات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ برف باری کے نتیجے میں وہاں نئی رونق پائی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے لوگوں خاص کر کسانوں ، باغ مالکان اور سیاحت سے جڑے افراد کے اندر سخت مایوسی پائی جاتی تھی ۔ یہاں تک کہ جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر نے بھی سخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کم برف باری سے سیاحوں کی آمد اثر انداز ہوجائے گی ۔ یہ بات یقینی مانی جاتی تھی کہ سیاحتی مقامات پر قدرتی حسن کے اثر انداز ہونے کے بعد سیاح یہاں کا رخ کرنے سے باز رہیں گے ۔ تاہم قدرت کی مہربانی سے کافی مقدار میں برف باری ہوئی ۔ توقع ہے کہ اس سے پورے کشمیر خاص کر سیاحتی مقامات کے لوگوں کو راحت ملے گی ۔ تاہم کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ برف باری نے روزمرہ کے معاملات کو کافی اثر انداز کیا ۔ خاص طور سے شہروں کے اندر ناقص ڈرینیج سسٹم کی وجہ سے سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا ہے ۔ چھتوں سے گرنے والے برف کے تودے پگھلنے اور بارشوں کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے سڑکیں جھیلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں ۔ انتظامیہ نے بروقت برف ہٹانے کے لئے مشینیں کام پر لگائیں ۔ لیکن جن اندرونی اور گنجان آبادی والے علاقوں میں یہ کام ممکن نہ ہوسکا وہاں لوگوں کو عبور ومرور میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔ ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ناقص پانی کے نکاسی کے نظام کی وجہ سے سڑکوں پر چلنا ممکن نہیں رہاہے ۔ ایسے کئی مریضوں نے شکایت کی کہ وہ ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس پہنچنے میں ناکام رہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سرینگر کی سڑکوں پر جگہ جگہ پانی جمع ہوگیا تھا ۔ یہاں تک کہ لالچوک میں دو فٹ کے لگ بھگ پانی کے جمع ہونے کی شکایت کی گئی ۔ اس وجہ سے ایک بار پھر لوگوں کو چلنے پھرنے میں دشواریاں پیش آئیں ۔
ناقص ڈرینیج سسٹم کی شکایت پہلی بار سامنے نہیں آئی ۔ بلکہ اس کی شکایت بہت پہلے سی کی جارہی ہے ۔ ایسی شکایات کو چند دنوں کے اندر دور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ موجودہ انتظامیہ نے سرینگر شہر کی تعمیر و ترقی پر کافی سرمایہ خرچ کیا ۔ بلکہ کئی بازاروں اور سڑکوں کو جدید طرز پر ڈال دیا گیا ۔ لوگوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ جن بازاروں اور سڑکوں کو کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا گیا تھا ایسی جگہوں کو بڑی محنت سے از سر نو تعمیر کیا گیا ۔ پلوں اور دریائی گھاٹوں کی تزئین کاری کی گئی ۔ لوگوں کو یقین دلایا گیا کہ سرینگر کو لندن اور فرانس کے شہروں کے طرز پر حسین و جمیل بنایا جائے گا ۔ اس حوالے سے بڑی خوشی کا اظہار کیا جارہاہے کہ انتظامیہ شہر سرینگر کو مجموعی طور اعلیٰ پایے کا شہر بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے ۔ تاہم اس دوران یہ بات ایک بار پھر سامنے آئی کہ پانی کے نکاس کا نظام پوری طرح سے ناکارہ بنایا گیا ہے ۔ اس میں یقینی طور شہریوں کا بھی قصور ہے کہ کوڑا کرکٹ انہی نالیوں میں ڈالا جاتا ہے ۔ جس سے پورا نظام مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے ۔ عام دنوں کو اس سے بہ ظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ لیکن ہر ضرورت کے وقت یہ نظام اسی طرح مفلوج ہوکر پورے شہر کو جھیل میں تبدیل کردیتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے بازاروں اور گھروں میں اب بھی پالی تھین تھیلوں کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے ۔ موٹی تہوں والے ان پالی تین تھیلوں کا جابجا پھینک دیا جاتا ہے اور اکثر ایسے تھیلے نالیوں میں گرے رہتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے یہ نالیاں بند ہوجاتی ہیں اور پانی کا نکاس ممکن نہیں رہتا ۔ اس کا خمیازہ بھی شہریوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ۔ آج برف باری کے حوالے سے مختلف محکموں کے سربراہوں نے پہلے سے اپنے کارکنوں کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی ۔ بھاری برف باری کی کئی دن پہلے پیش گوئی کی گئی تھی ۔ اس تناظر میں میونسپلٹی ، سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دوسرے تمام متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کو بر وقت کام پر لگایا گیا تھا ۔ اس کے باوجود ڈرینیج سسٹم میں نقص کی وجہ سے کام کا اچھا اثر دیکھنے کو نہیں ملا ۔ کافی محنت کے باوجود سڑکوں پر پانی نکالنا ممکن نہ ہوسکا ۔ ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا ۔ کام کرنے والے اہلکاروں کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں کہ اس سے کام ے کر پانی کو گلیوں اور سڑکوں سے نکالا جائے ۔ ڈرینیج سسٹم کو پوری طرح سے کار آمد بنائے بغیر یہ کام ممکن نہیں ۔ اگرچہ مشکل صورتحال کم وقت تک قائم رہی ۔ پانی جلد ہی سڑکوں سے نکالا گیا ۔ تاہم یہ بات پھر سامنے آئی کہ ڈرینیج سسٹم کو کار آمد بنائے بغیر سرینگر کو سمارٹ سٹی بنانے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ہے ۔
