حد بندی کا کام مکمل کرنے کے بعد اندازہ ہے کہ انتخابات کا جلد ہی انعقاد کیا جائے گا ۔ اس حوالے سے تازہ ترین بیان مرکزی وزیر دفاع کی طرف سے سامنے آیا ہے ۔ اپنے جموں کشمیر کے دورے کے موقعے پر انہوں نے جموں میں اعلان کیا کہ رواں سال کے آخر تک انتخابات کرائے جائیں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے پہلے ہی اس غرض سے کام کا آغاز کیا ہے ۔ پہلے مرحلے پر بوتھ لیول آفیسروں سے ووٹروں فہرستوں کو از سر نو ترتیب دینے کے لئے کہا گیا ہے ۔ اسی طرح انتخابات کے لئے پولنگ بوتھ مقرر کرنے کا کام بھی شد و مد سے جاری ہے ۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ حکومت بہت جلد الیکشن کرانے کا سوچ رہی ہے ۔ اگرچہ اس کے لئے تیاریاں مکمل کرنے کے لئے کئی مہینے درکار ہونگے تاہم اندازہ لگایا جارہا ہے کہ رواں سال کے آخر یا نئے سال کے شروع میں انتخابات ضرور ہوں گے ۔ ادھر کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ سال کے آخر پر کشمیر میں سرد موسم کی وجہ سے انتخابات کرانا مشکل ہوگا ۔ اس بات کا حوالے دے کر کئی لوگ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ انتخابات اگلے چھے مہینوں تک کرانا مشکل ہے ۔ اس کے باوجود کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ الیکشن ضرور ہونگے اور بہت جلد ہونگے ۔
جموں کشمیر میں پچھلے چار سالوں سے گورنر راج نافذ ہے ۔ پہلے ریاستی سرکار کو برخاست کرکے یہاں گورنر راج نافذ کیا گیا ۔ بعد میں ریاست کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے علاوہ اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ دونوں خطوں کو یونین ٹیریٹری قرار دیا گیا ۔ تاہم لداخ کے بجائے جموں کشمیر کے لئے انتخابات کے ذریعے اسمبلی قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ اس دوران اسمبلی حلقوں کی تشکیل نو اور حد بندی کے لئے ایک کمیشن کا کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ کمیشن نے حال ہی میں اپنا کام مکمل کرنے اور رپورٹ سرکار کو سونپنے کا اعلان کیا ۔ اگرچہ بیشتر سیاسی حلقوں کو حد بندی کمیشن کی طرف سے نئے اسمبلی نشستوں کی تشکیل نو سے متعلق بہت سے اعتراضات ہیں ۔ تاہم سرکار کی طرف سے ان اعتراضات کو مسترد کئے جانے اور اس کی سفارشات کو منظوری دئے جانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ حکومت پہلے ہی کئی بار کہہ چکی ہے کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اسمبلی انتخابات کرائے جائیں گے ۔ سرکار نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر کاربند ہے اور بہت جلد انتخابات کرانے کے حق میں ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ سرکار کے برعکس سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات کے معاملے میں ابھی کسی طرح کی سرگرمیاں سامنے نہیں آرہی ہیں ۔ اگرچہ یہاں کئی سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں ۔ تاہم عوامی سطح پر ان کی ایسی کوئی سرگرمیاں ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں سے ان سیاسی پارٹیوں کے لیڈر بند کمروں یا کچھ محدود انداز کی سیاسی گرمیاں کررہے ہیں ۔ بڑے پیمانے کی سیاسی سرگرمیاں تاحال نظر نہیں آرہی ہیں ۔ ان کی زیادہ تر سرگرمیاں حکومت کی تنقید تک محدود ہیں ۔ سرکاری طریقہ کار کی مخالفت کرنا ان کا واحد کام رہاہے ۔ اس دوران ان سیاسی رہنمائوں نے عوام کو متحرک کرنے اور اپنا ووٹ بینک بنانے کی تاحال کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔پچھلے دنوں ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے مشترکہ امیدوار بنانے کی تجویز کی تھی ۔ لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ کچھ ہندو توا جماعتوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کیا ۔ اس کے لئے ڈاکٹر فاروق نے خود بھی مبینہ طور صدارتی انتخابات کے لئے امیدوار بننے سے انکار کیا ۔ کچھ سال پہلے ڈاکٹر فاروق اس وقت سخت ناراض ہوگئے تھے جب اس وقت کی حکومت نے انہیں ایسے اہم عہدے کے لئے مقرر کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور ان کی ملک کے ساتھ ہمدردی کو مشکوک قرار دیا گیا ۔ آج جب انہیں صدارتی امیدوار بنانے کی تجویز سامنے آئی تو ڈاکٹر فاروق نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ ان سرگرمیوں وک دیکھ کر کئی طرح کے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ کئی حلقے اس بات پر ابھی کوئی رائے قائم نہیں کرپاتے ہیں کہ پیوپلز الائنس میں شامل جماعتیں الیکشن متحدہ طور لڑیں گی یا اپنی پارٹی سمبل کو لے کر الگ الگ امیدوار کھڑا کئے جائیں گے ۔ اگرچہ پی ڈی پی کی سربراہ نے بہت پہلے اعلان کیا ہے کہ وہ خود الیکشن میں حصہ نہیں لیں گی ۔ اس کے باوجود کیا کوئی متحدہ محاذ بنایا جائے گا ۔ اس بارے میں سیاسی منظر نامہ واضح نہیں ہے ۔ اس کے باوجود کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ مرکز اس سچویشن کا فائدہ اٹھاکر بہت جلد انتخابات کرانے کے حق میں ہے ۔ صورتحال کچھ بھی ہو تاہم انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کو عوام کے لئے مناسب قرار دیا جاتا ہے ۔
