سرینگر کے ایک پرائیویٹ ہسپتال کے آپریشن تھیٹر پر اس وقت تالا چڑھایا گیا جب یہاں ایک خاتون کی موت واقع ہوئی ۔ مرحوم خاتون کے رشتہ دار الزام لگارہے ہیں کہ طبی عملے کی لاپرواہی کی وجہ سے خاتون موت کا شکار ہوگئی ۔ احتجاج کرنے والوں نے یہاں ہنگامہ کیا ۔ اس وجہ سے انتظامیہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سخت قدم اٹھایا اور تحقیقات ہونے تک ہسپتال میں کسی بھی مریض کا آپریشن کئے جانے پر پابندی لگادی گئی ۔ ہسپتال انتظامیہ نے لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور اسے ایک قدرتی واقعہ قرار دیا ۔ تاہم کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی وجہ سے مریضہ موت کی شکار ہوئی ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پچھلے ایک مہینے کے دوران یہ اس نوعیت کا دوسرا واقع ہے جس کی تحقیقات کی جانی چاہئے ۔
سرکاری ہسپتالوں خاص کر زنانہ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ کھلواڑ اور اس کھلواڑ سے ان کی موت ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ ان ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دوسرے عملے کی لاپرواہیوں سے تنگ آکر اور گھبرانے کی وجہ سے ہی لوگ نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ معاوضہ دے کر یہاں انہیں بہتر طبی نگہداشت ملے گی ۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے کہا جا تا ہے کہ ان پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی اب مریضوں کی جیبیں لوٹنے کے سوا کوئی خاص علاج ومعالجہ نہیں ملتا ہے ۔ مریضوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرکے ان سے موٹی موٹی رقمیں وصول کی جاتی ہیں اور کوئی خاص علاج نہیں کیا جاتا ہے ۔ رمضان ہسپتال سے کئی دوسرے ہسپتالوں کے حوالے سے معلوم ہوا کہ مریضوں کے ساتھ سخت لاپرواہی سے کام لیا جاتا ہے ۔ کئی موقعوں پر مریضوں کے ساتھ آئے تیمار داروں نے الزام لگانے کے علاوہ توڑ پھوڑ کرکے حکام کو اس کا نوٹس لینے پر زور دیا ۔ لیکن بیشتر موقعوں پر لوگوں کی بات سننے کے بجائے ہسپتال مالکان کی طرف داری کی گئی ۔ ایسے ہسپتال وہی لوگ چلاتے ہیں جن کے پاس کافی سرمایہ ہونے کے علاوہ سرکاری حلقوں میں اثر ورسوخ بھی ہوتا ہے ۔ اسی بنیاد پر یہ ہسپتال چلانے کے ساتھ اپنی من مانی بھی کرتے ہیں ۔ ورنہ وادی میں شاید ہی کوئی ہسپتال ہوگا جو اس کے لئے ضروری لوازمات پورا کرتا ہو ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے ہسپتالوں میں سرکاری نوکریاں کرنے والے ڈاکٹر علاج معالجہ کرتے ہیں ۔ یہ ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر نجی ہسپتالوں میں کام کرنے آتے ہیں ۔ کئی بار شکایت کرنے اور ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کے بعد بھی کسی ایک ڈاکٹر کے خلاف کاروائی نہ ہوئی ۔ انسداد رشوت کے سارے ادارے پٹواریوں ، انجینئروں اور کلرکوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ روز کسی نہ کسی کو رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے ۔ جب ڈاکٹروں کا معاملہ آتا ہے تو سب ایسے اداروں کو سانپ سونگھ لیتا ہے ۔ ڈاکٹروں کے ہاتھ رنگ سے آلودہ نہیں بلکہ غریبوں کے خون سے رنگے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں اور کپڑوں پر خون کا یہ لال رنگ کسی کو نظر نہیں آتا ۔ پانچ دس ہزار روپے رشوت لینے والوں کو پکڑنا جب ضروری ہے تو قتل کرنے اور خون ناحق بہانے والے ڈاکٹروں کو کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ ایسا سوال ہے جس کے پاس کسی سرکاری ادارے کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر لکھ کر دیتے ہیں کہ وہ کوئی پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرتے اور کاغذ کے اس ٹکڑے کو دفتر میں پیش کرکے کئی ہزار روپے الائونس وصول کرتے ہیں ۔ اس دوران وہ کھلے بندوں پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتے ہیں ۔ نجی ہسپتال اور کلنک دس دس فٹ کے بورڈ چوراہوں پر سجاکر فلاں اور فلاں سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے طبی مشورہ حاصل کرنے کے لئے ان کے ہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں دن کی روشنی میں الو بولتے ہیں ۔ وہاں مریضوں کو نئی تاریخوں پر آنے کے لئے کہا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہی ڈاکٹر نجی ہسپتالوں میں موجود ہوتے ہیں ۔ اس صورتحال کے اندر ڈاکٹر قتل کریں یا غریب مریضوں سے بلا وجہ لاکھوں روپے بٹور لیں تو کوئی عجیب بات نہیں ۔ طبی محکمہ ، پولیس اور دوسرے تمام سرکاری ادارے ان سے ملے ہیں ۔ ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ بلکہ انہیں قانونی تحفظ بھی فرام کیا گیا ۔ ایسے نظام میں لوگوں کا خون چوسنا کسی کے لئے ناممکن نہیں ۔ پھر جب مسیحا ہی قاتل بن جائیں اور انہیں پارسا سمجھا جائے تو یہاں کسی کے جان کی خیر نہیں ۔ رمضانہ ہسپتال میں جو واقعہ پیش آیااس سے پہلے زنانہ ہسپتال ، بچوں کے ہسپتال اور صورہ ہسپتال میں ایسے درجنوں کیا سینکڑوں واقعات پیش آئے ۔ کسی کو چھوا تک نہیں گیا ۔ سرکار نے ہر ایسے موقعے پر سنی ان سنی کردی ۔ آج بھی کوئی بڑا کارنامہ انجام دئے جانے کی امید نہیں ہے ۔
