جموں کشمیر وقف بورڈ نے مبینہ طور کینسر ہسپتال کی تعمیر کے لئے اراضی کی نشاندہی کی ہے ۔ اس حوالے سے کہا جارہاہے کہ مرکزی وزیرداخلہ بہت جلد ہسپتال کی تعمیر کے کام کا آغاز کریں گے ۔ یہ بڑا منصوبہ ہے جو مکمل ہونے پر عوام کے لئے راحت کا باعث ہوگا ۔ کشمیر میں کینسر مریضوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے بلکہ اس میں کمی آنے کے بجائے آئے روز اضافہ ہورہاہے ۔ کئی طبی ماہرین نے بہت پہلے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کشمیر میں باقی علاقوں کی نسبت کینسر کا مرض تیزی سے پھیل رہاہے ۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ تاہم اصل وجہ کی تاحال نشاندہی نہیں کی جاسکی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ آج بھی سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں خاصی تعداد میں کینسر بیماری میں ملوث مریض زیر علاج ہیں ۔ کشمیر سے باہر جو بھی معروف ہسپتال ہیں ان میں بھی کشمیری مریض بڑی تعداد میں داخل ہیں ۔ مریضوں کو راحت پہنچانے کے لئے مرکزی سرکار نے ایشومان بھارت ابھیان کے تحت گولڈن کارڈ فراہم کئے ۔ یہ کارڈ بہت ہے سود مند ثابت ہوئے ۔ تاہم یہ بات تکلیف دہ ہے کہ بہت سے معتبر ہسپتال اس ابھیان کے دائرے سے باہر ہیں ۔ اس وجہ سے مریضوں کو علاج معالجے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ اب وقف بورڈ نے کینسر ہسپتال قائم کرنے کا ایک منصوبہ بنایاہے ۔ یہ ہسپتال یقینی طور ایسے مریضوں کے لئے اطمینان کا باعث ہوگا ۔
مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے اپنے زمانے میں صورہ میں میڈیکل انسٹی چیوٹ قائم کیا ۔ بہ ظاہر یہ کوئی بڑا کام نہ تھا ۔ لیکن آج معلوم پڑتا ہے کہ اس وجہ سے شیخ صاحب کا نام بڑی قدرو منزلت سے لیا جاتا ہے ۔ ان کے کھاتے میں لوگ کئی غلطیاں ڈالتے ہیں ۔ لیکن جب صورہ ہسپتال کا نام سامنے آتا ہے تو تنقید کرنے والوں کی زبانیں بند ہوجاتی ہیں ۔ اسی طرح معروف کرکٹ کھلاڑی کا نام کینسر ہسپتال کی تعمیر کی وجہ سے بہت عرصے تک زندہ رہے گا ۔ انہوں نے یہ ہسپتال اپنی ماں کے نام سے وقف کیا ہے ۔ اس کے باوجود عمران خان کو اس وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ۔ پرانے بادشاہوں نے لوگوں پر بڑے بڑے مظالم کئے ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ اچھے کام کئے ۔ سڑکیں تعمیر کیں ۔ کنویں کھودے اور راستوں میں سایہ دار درخت لگائے ۔ اپنے مظالم کے باوجود آج تاریخ انہیں ان کے عوام دوست کاموں سے جانتی ہے ۔ چنار اور باغات کی تعمیر کی وجہ سے آج تک مغل بادشاہوں کے نام زندہ ہیں ۔ ایسے کام تاریخی کارنامے مانے جاتے ہیں ۔ اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ آپ نے جنگیں جیت لیں اور اپنے دشمنوں کو زیر کیا ۔ اقتدار تک پہنچنے کے بعد یقینی طور عوام کی فلاح و بہبود کے کام بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ کینسر ہسپتال ایک تاریخی قدم ثابت ہوسکتا ہے ۔ کشمیر میں ہیلتھ سیکٹر پہلے ہی لوگوں کی تکلیف کم کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث قرار دیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر مسیحا نہیں بلکہ قاتل مانے جاتے ہیں ۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔اس وجہ سے طبی سہولیات بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں ۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ کشمیر میں طبی سہولیات کا فقدان نہیں ۔ قابل ڈاکٹر بھی موجود ہیں ۔ ہسپتالوں میں ضرورت کی ہر سہولت موجود ہے ۔ لیکن مریض دوست عملہ میسر نہیں ہے ۔ ہر کسی کی نظر مریض کی جیب پر لگی ہوتی ہے ۔ کتنی کمائی ہوگی سب کو اسی کی فکر ہے ۔ اس طرح کے ماحول میں ہسپتال بنانے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا ۔ طبی ضروریات کے لئے انفراسٹرکچر کی بنیادی اہمیت ہے ۔ اس کے بغیر کوئی انجام دینا ممکن نہیں ۔ تاہم عملے کو جوابدہ بنانا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ یہاں معمولی سردرد کا علاج کرانے کے لئے باہر کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔ کسی کی آنکھ میں تنکا اتر جائے تو اس کو نکالنے اور آنکھ بچانے کے لئے امرتسر جانا پڑتا ہے ۔کسی کے پائوں میں معمولی موچ آئے تو چندی گڑھ جانا پڑتا ہے ۔ کان میں سے پیپ نکلے تو دہلی اور ممبئی کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔ چھاتی میں در د اٹھے تو پانچ دس لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں ۔ پھر کچھ آرام مل جاتا ہے ۔ اس طرح کے علاج کے لئے لوگ اپنا سب کچھ بیچ ڈالتے ہیں ۔ موروثی زمینیں نکہ پیسا من فروخت کرنا پڑتی ہیں ۔ یہ ہمارے طبی نظام کی حالت ہے ۔ اس دوران انتظامیہ کی کوشش ہے کہ نئے ہسپتال قائم کئے جائیں ۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ لیکن نظام کو درست کئے بغیر ان سہولیات کے کوئی معنی نہیں ۔ ان ڈاکٹروں کو لے کر جو سردرد کی گولی سے لے کر ہارٹ کی سرجری تک ہر چیز کا کمیشن لیتے ہیں کینسر ہسپتال کی تعمیر سے کچھ زیادہ فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ نئی اور عالیشان عمارت تو بنے گی ۔ لیکن وہاں موجود ڈاکٹر وہی ہونگے جنہوں نے صدر ہسپتال ، صورہ ہسپتال اور زنانہ ہسپتال ہر جگہ کو ذبح خانون میں بدل دیا ہے ۔ یہ پریشانی ختم کئے بغیر کوئی بھی پروجیکٹ عوام کو سہولت پہنچانے میں مددگار ثابت نہیں ہوگا ۔
