شوپیان میں ابھی کشمیری پنڈت کی ہلاکت پر سوگ جاری تھا کہ یہاں پر دو غیر مقامی مزدور ہلاک کئے گئے ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ مزدوروں پر نزدیک سے گرینیڈ پھینکا گیا ۔ مزدوروں کی ہلاکت کا یہ واقع شوپیان کے حرمین علاقے میں پیش آیا جہاں مبینہ طور سوموار شام کو کرایے کے مکان میں ٹھہرے غیر مقامی مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ملی ٹنٹوں کی طرف سے کیا گیا ۔ غیر مقامی مزدوروں کے رہائشی ڈھانچے پر گرینیڈ پھینکا گیا ۔ اس گرینیڈ حملے میں دو مزدور زخمی ہوگئے جنہیں علاج کے لئے نزدیکی ہسپتال پہنچایا گیا ۔ زخموں کی تاب نہ لاکر دونوں مزدور دم توڑ گئے ۔ مارے گئے مزدوروں کی شناخت کی گئی ہے اور دونوں مزدور یوپی کے رہنے والے بتائے جاتے ہیں ۔ شوپیان میں تین دنوں کے اندر ہلاکتوں کا یہ دوسرا واقع ہے ۔ اس سے پہلے چودھری گنڈ شوپیان میں مقیم ایک کشمیری پنڈت کو گھر کے صحن میں گولیوں کا نشانہ بناکر ہلاک کیا گیا ۔ ہلاکت کے اس واقعے کی بڑے پیمانے پر مزمت کی گئی ۔تاہم دو دنوں کے اندر اسی علاقے میں غیر مقامی مزدوروں کی ہلاکت کا واقع پیش آیا ۔ اس دوران پولیس نے دعویٰ کیا کہ غیر مقامی مزدور وں پر حملہ کرنے والے جنگجو کو گرفتار کیا گیا ۔ گرفتار کئے گئے جنگجو کی نشاندہی پر کئی جگہوں پر چھاپے ڈالے گئے اور مزید تفتیش جاری ہے ۔
ہلاکتوں کے ان واقعات کی جہاں بڑے پیمانے پر مزمت کی جارہی ہے ۔ وہاں کئی حلقوں کی طرف سے ان پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ اپوزیشن لیڈر اسے موجودہ سرکار کی ناکامی قرار دے رہے ہیں ۔ این سی اور متحدہ اپوزیشن گپکار الائنس کے رہنما فاروق عبداللہ نے اس حوالے سے ایک سخت بیان دیتے ہوئے مرکزی سرکار کو نشانہ بنایا ۔ فاروق کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی تک ایسی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ یہ ایسی دھمکی ہے جو مرکز کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ فاروق عبداللہ نے اپنے بیان میں سرکار کے اس دعویٰ کو غلط قرار دیا کہ دفعہ370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیر میں امن و امان قائم ہوا ہے ۔ فاروق عبداللہ ریاسی میں میڈیا نمائندوں سے بات کررہے تھے جس دوران انہوں نے الزام لگایا کہ کشمیری نوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور انصاف قائم ہونے تک قیام امن کی بات کرنا غلط ہے ۔ فاروق عبداللہ کے بیان سے اختلاف کے باوجود یہ بات اپنی جگہ کہ کشمیر میں کئی سو ملی ٹنٹوں کی ہلاکت کے باوجود ایسے واقعات پر مکمل روک لگانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ اس حوالے سے لوگ بڑے مایوس نظر آرہے ہیں ۔ انتظامیہ اپنے طور کوشش کررہی ہے کہ ملی ٹنسی کے واقعات پر مکمل روک لگادی جائے ۔ حال ہی میں وزیرداخلہ نے کشمیر کا دورہ کیا ۔ اس موقعے پر انہوں نے راجوری اور بارھمولہ میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا ۔ دونوں جگہوں پر ہوئے جلسے اپنی نوعیت کے مخصوص جلسے تھے ۔ بی جے پی کے کسی رہنما کے جلسے میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت کو مقامی سیاسی حلقوں کے لئے ایک بڑا چیلنج قرار دیا گیا ۔ اس کے بعد طرفین کے مابین بیانات کی جنگ چھڑ گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ وزیرداخلہ کا کشمیر دورہ نئے سیاسی میدان میں سرگرمیوں کا باضابطہ آغاز تھا ۔ اس کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ بی جے پی کسی بھی مخالف چیلنج سے نمٹنے کے لئے پوری تیاری کرچکی ہے ۔ اس طرح کی سرگرمیاں نہ صرف کشمیر کے سیاسی حلقوں کے لئے سوالیہ نشان ہے بلکہ بچی کھچی ملی ٹنسی کے لئے بھی بڑا چیلنج خیال کیا جاتا ہے ۔ انتظامی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں اب پاکستان ، ملی ٹنسی یا حریت سرگرمیوں کی حمایت کرنے کی کوئی جرات نہیں کرے گا ۔ پچھلے کئی مہینوں سے حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دہلی کے لئے میدان ہموار ہوچکا ہے ۔ ایسی صورتحال کے اندر ملی ٹنٹ سرگرمیوں کا بڑھ جانا کوئی غیر ممکن بات نہیں ۔ ماضی میں جب بھی اس طرح کا ماحول بنایا گیا تو ملی ٹنٹوں نے کہیں نہ کہیں سر نکال کر بڑی واردات انجام دینے کی کوشش کی ۔ حکومت موجودہ واقعات کو بھیا سی تناظر میں دیکھ رہی ہے ۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ ملی ٹنٹوں کو عوام سے دور کرنے کے بعد اپنی بحالی کی کوششوں کے لئے عام شہریوں کو مارا جارہا ہے ۔ عام شہری جنگجووں کے لئے سافٹ ٹارگٹ مانے جاتے ہیں ۔ بے سروسامان شہریوں کو مارا جانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ ان حقایق کے باوجود ایک بات بڑی اہم ہے کہ ملی ٹنٹوں کے پاس ایسی وارداتیں کرنے کے لئے افراد اور سامان میسر ہیں ۔ سرحد پار سے سامان کی رسد کو ناممکن بنانے کے باجود اس طرح کے واقعات کا پیش آنا بڑی حیرانی کی بات ہے ۔ کئی سو ملی ٹنٹ حمایتی نوجوانوں کو جیلوں میں بند کرنے کے باوجود اس طرح کے واقعات کا پیش آنا خوف وہراس کا باعث بن رہاہے ۔ یہ سلسلہ جاری رہاتو الیکشن کے لئے سازگار ماحول بننا ایک بار پھر مشکل ہوگا ۔
