
جموں وکشمیر میں کم وبیش 18لاکھ سے زائد پہاڑی قبیلہ کے لوگ آباد ہیں۔منفرد لسانی، نسلی اور ثقافتی خصوصیت رکھنے والے اِس قبیلہ کے لوگ گذشتہ پانچ دہائیوں سے درج فہرست قبائل(ST)میں شامل کئے جانے کامطالبہ کر رہے ہیں اور یہ مانگ حکومت ِ ہند کے زیر ِ غور ہے۔جموں وکشمیر سطح پر حکومت کی طرف سے اِس قبیلہ سے وابستہ افراد اور طلبا کی فلاح وبہبودی کے لئے ماضی میں کئی اہم فیصلے لئے گئے تھے تاکہ ایس ٹی درجہ ملنے تک اِن کی فلاح وبہبودی کو یقینی بنایاجائے ۔ اِن میں مشاورتی بورڈکی تشکیل، ہوسٹلوں کا قیام، ٹرائبل سب پلان کی طرز پر سب پلان کی عمل آوری،زبان وادب کی ترویج وترقی وغیرہ شامل ہیں، مگر پچھلے چار سالوں سے اِس قبیلہ کو یوٹی انتظامیہ جموں وکشمیر نے یکسر نظر انداز کیا ہے۔
پہاڑی مشاورتی بورڈ
سال 1989کو آرڈر نمبرGAD-1439مورخہ26-10-1989 پہاڑی قبیلہ کی ترقی کے لئے پہاڑی مشاورتی بورڈ قائم کیاگیا۔ اِس کا مقصد ایک ایسے پلیٹ فارم کی تشکیل تھی جس سے پہاڑی قبیلہ کی وسیع ترقی یقینی بنائی جاسکے۔ سماجی واقتصادی ترقی کے لئے پہاڑی قبیلہ کے لوگوں کی مختلف شعبہ جات میں مناسب نمائندگی یقینی بنائی جائے۔ اِس میں خاص توجہ تعلیمی ،ثقافتی اور لسانی ترقی پر تھی۔ بورڈ نے مجموعی طور قبیلہ کی ترقی کے لئے پالیسی، منصوبہ بندی اور پروگراموں کی عمل آوری میں مشاورتی کردار ادا کرنا تھا لیکن پچھلے چار سالوں سے یہ بورڈ غیر فعال ہے۔ وائس چیئرمین عہدہ خالی ہے، چیئرمین کے اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہیں، جنہوں نے کبھی کوئی جائزہ میٹنگ طلب کرنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ اِن سالوں میں بورڈ ممبران کی سالانہ یا ششماہی کوئی بورڈ میٹنگ نہ ہوئی اور نہ کوئی پلان مرتب کیاگیا۔ بورڈ کا اہم مقصد ٹرائبل سب پلان کی طرز پر پہاڑی سب پلان کی عمل آوری ہے مگر اِس حوالے سے کچھ نہ کیاگیا۔ مشاورتی بورڈ ہوسٹلوں کے انتظام وانصرام اور اُن کی مناسب مانیٹرنگ میں بھی ناکام رہا ہے۔
پہاڑی ہوسٹل
پہاڑی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے غریب بچے بچیوں کو شہروں وقصبہ جات میں تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے 9ہوسٹل قائم ہیں جن میں راجوری اور پونچھ میں چار، بائز ہوسٹل جموں، کپواڑہ، اننت ناگ، بارہمولہ، اور کپواڑہ شامل ہیں۔بیشتر ہوسٹلوں میں بنیادی سہولیات کافقدان ہے۔ کھانے پینے کے یومیہ اخراجات فی طالبعلم کے حساب سے حکومت کی طرف سے جو رقم دی جارہی ہے وہ مہنگائی کے اِس دور میں ناکافی ہے اور اُس پر ستم ظریفی یہ کہ جوDiet Expensesدیئے جارہے ہیں، اُن کا بھی منصفانہ استعمال نہیں ہوتا۔ ہوسٹلوں میں داخل کئے جانے والے بچوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے جوکہ کئی سالوں سے متذکر ہ ہوسٹلوں میں فی کس زیادہ سے زیادہ سو اور کم سے کم 50ہے۔ ہوسٹلوں میں وارڈنوں کی تعیناتی اور تبادلے کے لئے کوئی پالیسی نہیں۔بیشتر وارڈن اہلیت کے برعکس سیاسی سفارشات اور اثر رسوخ کی بنیادپر لگائے گئے ہیں اور متعدد ایسے وارڈ ن یا اسسٹنٹ وارڈن ہیں جوکہ سالہا سال سے ایک ہی جگہ تعینات ہیں اور شکایات یہ ہیں کہ انہوں نے اجارہ داری ہی قائم کر رکھی ہے ۔ سیاسی سفارشات پر تعینات وارڈن سفارشات کی بنیاد پرطلبا کو ہوسٹل میں داخلہ بھی دیتے ہیں، جس وجہ سے ہوسٹلوں میں غریب، یتیم، مساکین بچوں کے بجائے سرکاری ملازمین، سیاسی لیڈران اور ٹھیکیداروں کے بچے داخل ہیں جوکہ سراسر زیادتی اور نا انصافی ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ جو طلباشہروں میں آکر کرائے پر کمرہ لیکر تعلیم حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر حصول ِ علم کا جذبہ ہے، ذہین ہیں، کو ایڈمیشن دی جاتی۔یوٹی انتظامیہ جموں وکشمیر کو چاہئے کہ فوری طور ہوسٹل وارڈن کی تقرری کے لئے باقاعدہ پالیسی بنائی جائے اور ہردو سال بعد وارڈنوں کو تبدیل کیاجائے۔ قابل ، دور اندیش اور قبیلہ کے بچوں کی بہتر ذہنی نشوونما کے لئے وژن رکھنے والے افراد کو بطور وارڈن تعینات کیاجائے۔
پوسٹ/پری میٹرک اسکالرشپ
پچھلے چند سالوں سے پہاڑی قبیلہ کے طلبا کو پوسٹ /پری میٹرک اسکالرشپ مناسب وقت پر نہیں مل رہا۔ مشاورتی بورڈ کا رول اِس حوالے سے انتہائی مایوس کن رہاہے، یہ بورڈ محض چند ملازمین کا بازآبادکاری مرکز بن کر رہ گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اِس میں پہاڑی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے چند مخلص ملازمین وافسران کو تعینات کیاجاتا جو درد بھی رکھتے، مگر ایسا نہیں ہے۔بورڈ میں 90فیصد سٹاف پہاڑی قبیلہ سے نہیں، اِس لئے اُنہیں رتی بھر احساس نہیں ہے، غیر ضروری طور طلبا کو پریشان کیاجاتا ہے۔ اسکالرشپ کی واگذاری میں کوئی شفافیت اور جوابدہی نہیں۔ اِس معاملہ کو ترجیحی بنیادوں پر فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں پچھلے کئی سالوں سے اسکالرشپ میں اضافہ نہیں کیاگیا ۔ موجودہ مہنگائی کے دور میں یہ بہت ہی کم ہے۔ لہٰذا ٹیکنیکل، پروفیشنل اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کاپوسٹ میٹرک اسکالرشپ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پہاڑی مضمون اسکولی نصاب میں …
عدالت عظمیٰ اور جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی ہدایات کے بعد سال 2006کو جموں وکشمیر حکومت نے آرڈر نمبرEdu-222/226جاری کیاتھا جس میں علاقائی /مادری زبانوں …(پہاڑی، کشیری، ڈوگری، گوجری، پنجابی، بودھی، بلتی)…کو اسکولی نصاب میں شامل کرنے کا حکم جاری کیاگیا۔ پہاڑی مضمون کا نصاب تیار کرنے کے لئے جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن(JKBOSE)اور جموں وکشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لانگویجز کی دو کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جنہوں نے سخت جانفشانی، عرق ریزی اور تحقیق کے بعد جامع نصاب اول تا آٹھویں جماعت تیار کیا۔ جون2017کو محکمہ اسکول تعلیم نے آرڈر نمبر333/2017اورگورنمنٹ آرڈر نمبرEdu-464/2017جاری کیاگیا جس میں اسکولی نصاب میں مادری زبان کو چھٹے مضمون کے طور پڑھانے کی بات کی گئی ۔
جموں وکشمیر میں بھی علاقائی زبانوں کشمیری،ڈوگری،پہاڑی،گوجری،لداخی،بلتی، پنجابی کو پڑھانے کے لئے جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن JKBOSEنے نصاب تیار کیا۔مادری زبان کو بطور مضمون اسکولوں میں پڑھاے جانے کے لئے محکمہ اسکول تعلیم کی عدم دلچسپی اور واضع پالیسی نہ ہوناہے۔مادری زبان کو بطور آپشنل سبجیکٹ رکھا گیا ہے جس وجہ سے طلبا سوچتے ہیں کہ اس کو پڑھنا بیکارہے۔جہاں پہاڑی زبان بولنے والے بچے زیر تعلیم ہیں۔اْن اسکولوں سے صحیح اعدادوشمار حکام بالا کو نہ بھیجنا ہے۔چار ماہ قبل محکمہ اسکول تعلیم کو طلبا کی تفصیلات اور کتابوں کی ڈیمانڈ بھیجنی ہوتی ہے جس پرJKBOSE اْتنی ہی کتابیں چھپواتے ہیں۔ متعلقہ اسکول ہیڈماسٹر,پرنسپل,زونل ایجوکیشن اور چیف ایجوکیشن افسران کی طرف سے پہاڑی کتابوں کی ڈیمانڈ نہ کرنا ہے ۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے اساتزہ کا یہ عذر ہے کہ اْنہیں پہاڑی سکرپٹ مشکل لگتی ہے وہ پڑھا نہیں سکتے۔جہاں جہاں پہاڑی بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔اْن علاقوں میں موجود سرکاری اسکولوں کے ٹیچروں کو پہاڑی زبان پڑھانے کے لئے تربیت دی جائے۔ Orientation Training Programmesکرائے جائیں۔DIET کیسالانہ ٹریننگ شیڈیول میں مادری زبانوں پرٹیچروں کو تربیت دینے کا پروگرامز بھی شامل کئے جائیں۔بچوں کا داخلہ/رجسٹریشن فارم میں باقاعدہ (مادری زبان کون سی ہے۔۔۔۔۔؟) کا کالم ہو اور اس کو دھیان سے بھرا جائے۔ اور آدھارشیلہ adharsheelaمیں بھی آن لائن ڈاٹا فیڈ ہو۔ جس سے ایک مکمل اور مستند اعدادوشمار محکمہ کے پاس دستیاب ہوسکتے ہیں۔زیادہ تر پہاڑی بولنے والے راجوری،پونچھ،کپواڑہ،بارہمولہ کیعلاوہ شوپیان،اننت ناگ،گاندربل اور وادی کیدیگر چند علاقوں میں آباد ہیں۔ اس لئے چائیے کہ متعلقہ چیف ایجوکیشن افسران اور زونل ایجوکیشن افسران سیقبیلہ کے معززین ملاقات کریں اور پہاڑی سبجیکٹ کو پڑھانے کے لئے اسکول تعلیم کو مجبور کریں۔سب سے اہم یہ بھی ہے کہ والدین ہر حال میں بچے کو ذہنی طور پر مادری زبان کوبولنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے اورلکھنے کے لئے بھی تیار کریں۔نئی قومی پالیسی کے تحت تین زبانیں پڑھائی جانی ہیں۔ اس میں پہلی ترجیحی L1کے طور مادری زبان کو دی جائے۔یونی ورسٹی سطحی پر پی جی کورس کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب اسکولی سطح پر پہاڑی سبجیکٹ پڑھایا جائے گا۔آٹھویں تک پہاڑی سبجیکٹ ہوگا تو پھر ہم نویں تا بارہویں اور پھر گریجویشن سطح پر بھی اِس کو متعارف کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اس سے روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوں گے ۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ مادری زبان کو …آپشنل نہیں لازمی طور پڑھایاجائے‘‘
ریڈیو اور دوردرشن پر نمائندگی
انتہائی افسوس کن امر اور حیرانگی کا مقام ہے کہ 18 لاکھ کے قریب پہاڑی زبان بولنے والے لوگ آباد ہیں لیکن اُنہیں آل انڈیا ریڈیو جموں اور دور درشن جموں پرکوئی نمائندگی نہیں۔ پہاڑی زبان بولنے والے زیادہ لوگوں کی تعداد صوبہ جموں میں ہے، مگر ریڈیو اور دور درشن پر خبریں نشرہوتی ہیں اور نہ ہی اِس قبیلہ کی تہذیب وتمدن، ثقافت کو فروغ دینے کے لئے کوئی پروگرام براڈ کاسٹ ہوتا ہے ۔ یہ آئین ِ ہند کے آرٹیکل 29اور30کی خلاف ورزی ہے۔ مرکزی وزارت برائے اطلاعات ونشریات حکومت ِ ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس وسیع آبادی تک حکومت کی اسکیموں ، پروگراموں اور روزمرہ معلومات پہنچانے کے لئے اُن کی مادری زبان میں ریڈیو اور دوردرشن سے خبریں اور پروگرام نشر کرے۔
پہاڑی ریسرچ اینڈ کلچرل سینٹر
جموں وکشمیر کے پہاڑی قبیلہ کا مخصوص رہن سہن، طرز معاشرت، پہناوا، کھان پین، رسم ورواج ہیں۔ منفرد لسانی، ثقافتی اور نسلی خصوصیت رکھنے والے اِس قبیلہ کے کلچرکو نہ صرف فروغ دینے بلکہ اِس کو محفوظ رکھنے کی اشد ضرورت ہے جس پر دورِ جدیدیت اور مغربیت کا اثر تیزی سے حاوی ہورہا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ جموں وکشمیر میں پہاڑی ریسرچ اینڈ کلچرل سینٹر قائم کیاجائے۔ جس میں پہاڑی زبان وادب، ثقافت، لوک ورثہ و اِس سے جُڑی دیگر چیزوں پر تحقیق ہو اور اُس کی ڈاکومنٹیشن کی جائے۔
پہاڑی ثقافتی میلے
پہاڑی قبیلہ کی رہائشی بستیوں میں سال بھر کچھ روایتی میلے اور تقاریب ہوتی ہیں جن کی پرموشن کی ضرورت ہے۔ اپنی سطح پر لوگ ایسے پروگرام منعقد کرتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی خاص توجہ اِن میلوں پر نہیں دی جارہی۔ محکمہ کلچر کو چاہئے کہ وہ خانہ پوری کی بجائے رسمی وعلامتی پروگرام کے بجائے باقاعدہ طورر اُن اضلا ع اور علاقہ جات جہاں پہاڑی قبیلہ کے لوگ رہتے ہیں، میں ثقافتی میلوں کا انعقاد کرے۔ اِس کے لئے سالانہ باقاعدہ کلینڈر ترتیب دیاجائے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہاڑی کلچر اور ہیری ٹیج کو فروغ دے۔
پبلی کیشن
کثیر تعداد میں شعرا، ادیب اور قلمکار ہیں جنہوں نے پہاڑی زبان وادب کی ترقی کے لئے شاندار کام کیا ہے، وسیع ادبی مواد اُن کے پاس موجود ہے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے وہ اِس کو کتابی شکل نہیں دے سکتے ۔ کلچرل اکیڈمی کا شعبہ پہاڑی واحد پلیٹ فارم ہے جو کچھ حد تک شعراء ادبا کی معاونت کرتا ہے لیکن وہ آٹے میں نمک برابر ہے ، نیز وہ بھی مشروط ۔شرائط کے تابع شاعر اور مصنف کو حقیقت کی ترجمانی کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ حکومت کو چاہئے کہ باقاعدہ طور پہاڑی کتابوں کی پبلی کیشن کے لئے سالانہ فنڈز واگذار کئے جائیں ۔
متذکرہ بالا معاملات جن کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سب یوٹی حکومت جموں وکشمیر کے حد اِ ختیار میں ہیں لیکن جب سے جموں وکشمیر ریاست یوٹی بنی ہے ، اِن پر کوئی توجہ نہ دی گئی ۔لیفٹیننٹ گورنر کو چاہئے کہ اس حوالے سے اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس طلب کر کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔قبیلہ سیاسی قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ اِن مسائل پر بھی توجہ دیں کیونکہ اِن معاملات پر توجہ دیئے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ’ایس ٹی ‘درجہ جوکہ حکومت ِ ہند کے حد اختیار میں ہے، اگر مل بھی جاتی ہے تو وہ کوئی’’ اللہ دین کاچراغ‘‘نہیں کہ راتوں رات انقلابی تبدیلی رونما ہوجائے گی، بلکہ ایسی صورت میں کئے نئے چیلنجز جنم لیں گے جن کا مقابلہ بڑ امشکل ہوگا۔
