کئی حلقے اس پر حیران ہیں کہ ٹریجریوں میں بلوں کی ادائیگی وقت پر نہیں ہورہی ہے ۔ سرکار اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہی ہے ۔ البتہ ٹریجریوں میں مبینہ طور کروڑوں روپے کی بلیں پڑی ہیں ۔ کسی وجہ سے ان کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے ۔ یہاں تک کہ ملازموں کے جی پی فنڈ کی ادائیگی میں بھی مشکلات آرہی ہیں ۔ اسی طرح دوسری ادائیگیاں بھی رکی پڑی ہیں ۔ اس حوالے سے کئی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ دفاتر آج تک تین سال پہلے رکی پڑی رقومات واگزار کرانے سے قاصر ہیں ۔ اس سے تو یہی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کووڈ کے دوران تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہونے کی وجہ سے جہاں عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے وہاں سرکار بھی ایسی مشکلات سے پرے نہیں ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے سخت مجبوریوں کے تحت جی پی فنڈ اور دوسرے قرضوں کے لئے رقوم کی خواہش کی ہے انہیں بھی ادائیگی نہیں ہورہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکار نے مالی لین دین پر کسی قسم کی روک لگادی ہے ۔ ملازموں کو وقت پر تنخواہیں مل رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسری مراعات دینے میں بھی پس و پیش نہیں کیا جاتا ہے ۔ بلکہ انہیں کئی طرح کے الائونس ان کی ضرورت سے زیادہ دئے جاتے ہیں ۔ آفس ایکس پنسز اور دوسرے مدات کے لئے رقومات فراہم کی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود کچھ معاملات تاحال الجھے پڑے ہیں ۔ اس میں کیا مسائل درپیش ہیں اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
لوگ دیکھ رہے ہیں کہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے معاملے میں حکومت بڑی مددگار ثابت ہورہی ہے ۔ بڑی سڑکوں پر تار کول بچھانے کے علاوہ چھوٹی سڑکوں اور گلی کوچوں کو پختہ بنایا جارہا ہے ۔ ریورل ڈیولپمنٹ کے تحت ایسے کام کرائے جاتے ہیں جن کا دس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ پہاڑیوں کی بلند چھوٹیوں تک پختہ سڑکیں بنائی جائیں گی ۔ دوردراز کے علاقوں کو پانی اور بجلی فراہم کئے جانے کا خواب دیکھنا بھی مزاق لگتا تھا ۔ لیکن آج یہ سب کچھ حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے ۔ اس دوران یہ عجیب بات سامنے آرہی ہے کہ کروڑوں روپے کی ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں ۔ یہ کوئی لوکل پرابلم ہے یا حکومت مالی مشکلات سے دوچار ہے کہنا آسان نہیں ۔ سرکار ایسے ایسے پراجیکٹ بنارہی ہے جن پر کافی سرمایہ خرچ ہوتا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ تاہم اس دوران ٹریجریوں بھی بلوں کی ادائیگی نہ ہونا معنی خیز ہے ۔ یا تو یہ اس ڈپارٹمنٹ کی نا اہلی ہے کہ حکومت کے سامنے ایسی ضروریات پیش نہیں کی گئی ہیں ۔ پہلے سے اس کے لئے ڈیمانڈ کی گئی ہوتی تو شاید وقت پر پیسہ ملنا مشکل نہ تھا ۔ کچھ سال پہلے صرف ٹھیکہ دار اس حوالے سے احتجاج کرتے اور الزام لگاتے کہ ان سے کام کراکے پیسے ادا نہیں کئے جاتے ہیں ۔ سیاسی حکومتوں کے زمانے میں بہت سے لیڈر ووٹ حاصل کرنے کے لئے بغیر خاص منصوبہ سازی کے اپنی خواہش پر کام کرانے کا اعلان کرتے تھے ۔ پھر ٹھیکہ داروں سے ایسے کام کرائے جاتے جن کے لئے فنڈز موجود نہیں ہوتے ۔ سرکار ایسی ادائیگوں مں مینے اور سال لگادیتی ۔ بلکہ بیشتر ایسے کاموں کے لئے کبھی پیسے واگزار ہی نہیں ہوتے ۔ آج ایسا مسئلہ نہیں ہے ۔ کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہیں کہ ہر کوئی لوٹ کرنے کی کوشش کرے ۔ بلکہ باضابطہ ایک نظام ہے جس پر عمل کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کچھ حلقے ضرور ایسے ہیں جو مداخلت کرکے نظام میں خلل ڈالنے کے درپے ہیں ۔ وہ عوامی مفاد یا سرکار کے فائدے کے لئے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنا فائدہا ٹھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس طرح کے لوگ پہلے بھی موجود تھے آج بھی نظر آتے ہیں ۔ مختلف محکموں کے چکر لگاکر وہاں اپنے مفادات کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔ اس کا شکار عام لوگ ہوتے ہیں ۔ اس سے عام لوگوں کے مفادات کو زک پہنچتی ہے ۔ اگرچہ بہت سے کام لوگوں کے مفاد کو دیکھ کر ہی کئے جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود کچھ کام ذاتی دوستی اور اقربا نوازی کے پس منظر میں ہوتے ہیں ۔ پچھلے کئی روز سے دیکھا جارہاہے کہ دفتروں کے اندر رشوت لینے اور دینے کا بازار لگا ہوا ہے ۔ رو ز کاروائی کرکے کسی نہ کسی کو دھر لیا جاتا ہے ۔ اس سے یہی اخذ کیا جاتا ہے ک نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں ناکام ہورہی ہیں ۔ جب دو چار ہزار سے لے کر رشوت کا لین دین ہزاروں اور کروڑوں تک پہنچ جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ناسور سماج اور اداروں کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے ۔ رشوت کے ایسے بازار کے بیچ سرکاری مالی نظام درست ہونا بعید از قیاس نہیں ہے ۔ ایسے موقعوں پر سرکار بھی بے بس ہوتی ہے ۔