ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ایک الیکشن ریلی میں بی جے پی حکومت کو ٹارگٹ بناتے ہوئے کہا کہ یہ خالی دھمکیاں دیتی عملی اقدام کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ انہوں نے مرکزی وزیردفاع کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایاجس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان زیر انتظام کشمیر جلد ہی ہندوستان کا حصہ ہوگا ۔ ڈاکٹر فاروق نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر ان میں اتنی طاقت ہے تو وہ یہ کام جلد انجام دیں ۔ انہوں نے پاکستان کے نیو کلئر بم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج نے چوڑیاں نہیں پہنی ہیں بلکہ وہ حملے کا بھرپور جواب دے گی ۔ انہوں نے اس بات پر واویلا کیا کہ بم کا نشانہ کشمیری عوام ہونگے ۔ فاروق عبداللہ کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی انتخابی مہم میں بی جے پی ایک اہم ٹارگٹ ہے ۔ اس دوران این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ کا یہ بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے بی جے پی کا ساتھ دینے والوں کو نشانہ بنایا ۔ انہوں نے پی سی کے سجاد لون اور پی ڈی پی کے خلاف زور دار بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے بی جے کے خلاف لوگوں سے ووٹ حاصل کئے ۔ بعد میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنائی ۔ اس کے جواب میں سجاد لون نے چیلنج کیا کہ اگر انہوں نے کبھی خود کو بی جے پی کا ساتھی بتایا ہوگا تو وہ معافی مانگنے کو تیار ہے ورنہ عمر عبداللہ کو غلط بیانی پر معافی مانگنی چاہئے ۔ اس سے پہلے پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے ایک عوامی جلسے میں لوگوں سے اس بات پر معافی مانگی کہ انہوں نے بی جے پی سے مل کر لوگوں پر ظلم کیا ۔ دو ہزار چودہ کی ایجی ٹیشن کے حوالے سے ان سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے اپنے دئے گئے بیانات پر معذرت کی ۔ بلکہ سرینگر نشست سے پی ڈی پی کے امیدوار وحید پرہ نے بھی اس حوالے سے نرم بیانات دئے اور لوگوں سے معافی مانگ کر انہیں ووٹ دینے کی گزارش کی ۔ الیکشن میں حصہ لینے والے لیڈروں کے بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مخالفت سے زیادہ بی جے پی کو ٹارگٹ بناتے ہوئے الیکشن مہم چلارہے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ وحید پرہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ این سی کے خلاف لوگوں سے ووٹ طلب نہیں کررہے ہیں ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ رواںالیکشن میںاصل مقابلہ این سی اور پی ڈی پی کے درمیان ہے ۔ اس کے باوجود دونوں پارٹیاں بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی الیکشن مہم چلارہی ہیں ۔
بی جے پی نے رواں الیکشن کے لئے کشمیر کی تین نشستوں میں سے کسی ایک پربھی اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے ۔ پارٹی نے اپنے کارکنوں کو کسی دوسری پارٹی کا سپورٹ کرنے کا ابھی تک مشورہ بھی نہیں دیا ہے ۔ بلکہ کہا ہے کہ اس حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ۔ پارٹی نے جموں اور اودھم پور کے علاوہ لداخ نشست پر اپنے امیدوار کھڑا کئے ۔ پارٹی کے مرکزی رہنمائوں کی ساری توجہ ان ہی تین نشستوں پر مرکوز ہے ۔ سرینگر کے حوالے سے مرکزی وزیرداخلہ نے واضح کیا کہ ابھی پارٹی یہاں انتخابی نشان کنول لے کر میدان میں نہیں آرہی ہے ۔ اسکے باوجود تمام مقامی جماعتوں کا ہدف بی جے پی ہے ۔ حالانکہ ماضی میں ان تمام سیاسی جماعتوں کی بی جے پی کے ساتھ دوستی رہی ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد اگر جرم ہے تو این سی اور پی ڈی پی دونوں مجرم مانے جاسکتے ہیں ۔ این سی کے عمر عبداللہ اس حوالے سے پی ڈی پی کے علاوہ سجاد لون کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے اس زمانے میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا جب کشمیر میں ان کا کوئی نام لیوا نہیں تھا ۔ بی جے پی کو کشمیر میں این سی ہی نے متعارف کیا ۔ اسی طرح پی ڈی پی نے بی جے پی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ دوسری کسی سیاسی جماعت نے کھل کر ایسا نہیں کیا ۔ سیاسی دنگل کے دوران اس طرح کی باتیں کرنا عجیب نہیں ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ آگے جاکر کشمیر سے کامیاب ہونے والے ہر لوک سبھا ممبر کو بی جے پی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ۔ بی جے پی دعویٰ کرتی ہے کہ رواں انتخابات میں اسے بھاری منڈیٹ حاصل ہوگا اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی ۔ واقعی ایسا ہوا تو عمر عبداللہ حکومت سے دور رہے گا نہ کوئی دوسرا ممبر اپوزیشن میں رہنے کے لئے تیار ہوگا ۔ یہ بات یقینی ہے کہ کشمیر سے کامیاب ہونے والا کوئی بھی پارلیمنٹ ممبر مرکزی سرکار کے خلاف کھڑا رہنے کی جرات نہیں کرے گا ۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں جماعتوں کے پالیسی ساز اس بات سے واقف ہیں اور اس حوالے سے پریشان نہیں ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور نہ ہی کانگریس نے یہاں الیکشن لڑنے کی ضرورت محسوس کی ۔ اس بات سے باخبر ہونے کے باجود تمام سیاسی حلقے بی جے پی کی ڈٹ کر مخالفت کررہے ۔ اس مخالفت سے الیکشن نتائج پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے ۔ تاہم عوام اس بات پر حیران ہیں کہ سیاسی لیڈر ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ بی جے پی کا کشمیر کے حوالے سے موقف واضح ہے ۔ ابہام اگر ہے تو کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے اندر ہے ۔