سابق وزیر اعلیٰ اور معروف مرکزی رہنما غلام نبی آزاد نے سرینگر پارلیمانی نشست کے لئے ہوئی پولنگ پر تعجب کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے سرینگر میں کم پولنگ شرح کے حوالے سے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کا رجحان سامنے نہیں آیا ہے ۔ آزاد کا کہنا ہے کہ انہیں اندازہ تھا کہ لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آئیں گے اور اپنے جذبات کا اظہار کریں گے ۔ لیکن ووٹنگ شرح اوسط درجے کی رہی جس سے لوگوں کے جذبات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔ سرینگر پارلیمانی نشست کے لئے ووٹ پیر کو ڈالے گئے ۔ شام تک لوگ ووٹ ڈالتے رہے اور معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح 38 فیصد رہی ۔ بہت سے حلقوں نے اس ووٹنگ شرح پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد سرینگر میں لوگ اس طرح سے آزادی کے ساتھ پولنگ بوتھوں پر آکر ووٹ ڈالتے رہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کے جن دوسرے علاقوں میں پیر کو ووٹ ڈالے گئے سارے حلقوں میں ووٹنگ کی شرح پچھلے الیکشن کے مقابلے میں کم رہی ۔ اس کے بجائے سرینگر میں ووٹنگ شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ لوگوں کے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے پر لیفٹنٹ گورنر نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اسے انتظامیہ کے لئے حوصلہ افزا بات قرار دیا ۔ بعد میں ایل جی کے علاوہ وزیراعظم نے بھی ووٹنگ شرح اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اپنے بیان میں اسے حوصلہ افزا قرار دیا اور 38 فیصد پولنگ کو جمہوریت پر عوام کے اعتماد کا اظہار قرار دیا ۔ وزیراعظم نے لوگوں کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے اپنے سماجی رابطے کی سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 2019 کے مقابلے میں ووٹنگ ٹرن آوٹ دوگنا ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اسی طرح وزیرداخلہ نے لوگوں کے ووٹ ڈالنے کے اس عمل کو حکومتی فیصلوں کی تصدیق قرار دیا ہے ۔ اسی طرح دوسرے لیڈروں نے ووٹنگ شرح پر اطمینان کا اظہار کیا اور اسے عوامی جذبات کی عکاسی قرار دیا ۔ ان سب سے اختلاف کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہاہے کہ ووٹنگ شرح ان کی توقع سے بہت کم رہی اور اس ووٹنگ شرح سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ عوام دفعہ 370 کی منسوخی سے متعلق کس طرح کے خیالات رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ووٹنگ شرح کو ضرورت سے بہت کم قرار دیا ۔
غلام نبی آزاد کا سرینگر پارلیمانی نشست پر پولنگ ٹرن آوٹ کے حوالے سے بیان اس کے بعد سامنے آیا جب پی ڈی پی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ لوگوں نے مرکزی سرکار کے اقدامات کی نفی کی ہے ۔ آزاد نے مفتی کے خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے بیان دیا کہ اتنی سی ووٹ شرح سے لوگوں کے جذبات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے اس پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لئے نئی بات ہے کہ لوگوں نے کم تعداد میں ووٹ ڈالے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نوے پچانوے فیصد پولنگ کی امید کرتے تھے جبکہ یہ صرف اڑتیس فیصد رہی ۔ آزاد کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں ٹرن آوٹ میں چند فیصد کا اضافہ ضرور ہوا ہے ۔ تاہم یہ اتنی زیادہ نہیں ہے جس سے 2019 میں سرکار کی طرف سے لئے گئے بڑے فیصلوں کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا اندازہ لگایا جاسکے ۔ ملی ٹنسی سے متاثرہ علاقوں میں ووٹنگ ٹرن آوٹ بڑھنے پر آزاد نے کہا کہ جہاں بہت پہلے ملی ٹنسی ختم ہوچکی ہے وہاں بھی ووٹ ڈالنے کی شرح تیس چالیس فیصد سے آگے نہ جاسکی ۔ لہذا اس سے کوئی حتمی اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔ آزاد کولگام میں ان کی پارٹی کی طرف سے بلائے گئے جلسے سے خطاب کررہے تھے جہاں انہوں نے سرینگر حلقے کے لئے کم ووٹنگ شرح پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ یادرہے کہ سرینگر نشست کے لئے پیر کو ہوئی ووٹنگ 2019 کے بعد کسی بڑے الیکشن میں لوگوں کی پہلی شرکت تھی ۔ 2019 میں سرکار نے جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرتے ہوئے اسے دو الگ الگ یوٹیز میں تقسیم کیااور اسمبلی کو معطل کیا گیا ۔ اس دوران لوگوں کو چند مقامی اداروں کی تشکیل کے لئے ووٹ دینے کے علاوہ کسی طرح کے انتخابات میں شرکت کا موقع نہیں ملا ۔ پیر کو کشمیر کی تین نشستوں کے لئے ہونے والی ووٹنگ کے پہلے مرحلے پر سرینگر پارلیمانی نشست کے لئے ووٹ ڈالے گئے ۔ یہاں ووٹنگ کی شرح 37.98 فیصد رہی ۔ اگرچہ تمام علاقوں کے اندر ووٹ ڈالے گئے اور کسی بھی علاقے سے ووٹنگ میں خلل ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ اس طرح سے انتخابی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر لوگوں اور دوسرے اداروں کا شکریہ ادا کیا گیا ۔ ووٹنگ شرح کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے سرکاری حلقوں کے علاوہ دوسرے کئی اپوزیشن رہنمائوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ تاہم غلام نبی ٓآزاد نے ووٹ ڈالنے کی شرح کو توقع سے کم قرار دیتے ہوئے اس پر تعجب کا اظہار کیا ۔